نانا وتی کمیشن رپورٹ

گجرات مسلم کش فسادات و گودھرا ٹرین آتشزنی واقعہ کی تحقیقات کرنے والے ناناوتی کمیشن نے 12 سال بعد اپنی رپورٹ پیش کرکے مارچ 2002 ء کے ہولناک واقعات کے اصل خاطیوں کا پتہ چلایا ہے تو یہ متاثرین کے حق میں انصاف ہوگا۔ فسادات کی تاریخ میں کسی بھی سرکاری پیانل اور کمیشن کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد متاثرین کے ساتھ انصاف اور خاطیوں کے خلاف کارروائی کی اُمید موہوم ہوجاتی ہے۔ اگر اس تحقیقات میں حکومت کی ناکامیوں اور پولیس کی زیادتیوں کو آشکار کیا گیا ہے تو ناناوتی کمیشن رپورٹ کو سرد خانے کی نذر کردیا جائے گا۔ ناناوتی کمیشن کو دو مرتبہ تبدیل کیا جاچکا ہے۔ 6 مارچ 2002 ء کو گجرات حکومت نے ابتداء میں کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت پیانل تشکیل دیا تھا۔ اس وقت کمیشن ایک رکنی تھا جس کی قیادت ہائیکورٹ کے ریٹائرڈجج کے جی شاہ کررہے تھے۔ سپریم کورٹ جج سے کئے گئے مطالبہ کے باعث ہی حکومت نے 21 مئی کو اس کمیشن کی دو رکنی پیانل بنایا جس میں ریٹائرڈ جسٹس جی ٹی ناناوتی کو شامل کیا گیا۔ ناناوتی 1984 ء کے مخالف سکھ فسادات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے بھی سربراہ تھے لیکن مخالف سکھ فسادات کی تحقیقات کو بھی اُس وقت کی حکمراں پارٹی نے سرد خانے کی نذر کرکے متاثرین سے ناانصافی کی تھی۔

گجرات میں بھی متاثرین کو اس ناناوتی کمیشن رورٹ سے راحت ملے گی یہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ مگر مرکز اور ریاستی بی جے پی حکومت کی موجودگی میں اس رپورٹ کی سچائی باہر آسکے گی، یہ غور طلب ہے۔ گجرات فسادات کے متاثرین کے لئے حصول انصاف کی جدوجہد کرنے والے اداروں اور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناناوتی کمیشن رپورٹ کے متن کو باہر لانے کی کوشش کریں کیوں کہ واقعات و شواہد کے مطابق گودھرا ٹرین آتشزنی واقعہ کو مشتبہ بتایا گیا۔ لیکن اس کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات حکومت کی سرپرستی میں کئے جانے والے تشدد کی انتہائی دردناک سچائی ہے جس کو تسلیم کرنے میں بدنیتی اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔ سیول سوسائٹی گروپس کی آزادانہ تحقیقات میں گجرات کی نریندر مودی حکومت، پولیس اور سرکاری نظم و نسق نے فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے کر مسلم کش فشادات کو ہوا دی تھی۔ عینی شاہدین کے بیانات بھی اس فساد کی ہولناکیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ عام فہم بات ہے کہ اتنے بڑے پیمانہ کا قتل عام اور جارحانہ فسادات سرکاری سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں تپے۔

سرکاری مشنری کے اسپانسر کردہ تشدد کا رواج اس ملک کی سب سے بڑی بدنصیبی متصور ہوتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنی طاقت میں اضافہ کرنے کے لئے ایک طبقہ کو تشدد کے لئے اُکساتے ہیں اور دوسرے طبقہ کی زندگیوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلتی ہیں۔ ملک میں اب تک مختلف عنوانات اور حوالوں سے ہونے والے فسادات کے متاثرین کو انصاف نہیں ملا ہے۔ خاطیوں کو سزا دینے کا قانونی پہلو ہی مفقود کردیا جائے تو پھر ظلم و زیادتیوں کی ایک بھیانک داستان ہر پل اپنا اثر دکھانے کے لئے تیار کھڑی نظر آئے گی۔ اگر ناناوتی کمیشن نے ابتدائی دیانتدارانہ مظاہرہ کی طرح گجرات فسادات کی تحقیقات میں حقائق، واقعات، سچائی کو قلمبند کیا ہے تو خاطیوں کو سزا اور متاثرین کو انصاف ملنا یقینی ہوگا۔ لیکن کمیشن کی تشکیل کے بعد 2004 ء میں مرکز کی یو پی اے حکومت سے این ڈی اے حکومت آنے کے بعد حکومت گجرات کے حوصلے بلند ہوگئے تھے۔ اس نے ٹرمس آف ریفرنس میں ترمیمات کئے۔ ان ترمیمات کے بعد کمیشن کو چیف منسٹر نریندر مودی کو سمن جاری کرنے کے اختیار سے محروم کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد ستمبر 2008 ء میں پیش کردہ رپورٹ میں گجرات فسادات میں چیف منسٹر نریندر مودی اور دیگر کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے اُنھیں ’’کلین چٹ‘‘ دیا گیا۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کے تحفظ اور اُنھیں راحت فراہم کرنے بازآبادکاری کیلئے کئے گئے اقدامات میں کسی کوتاہی یا تساہلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ اس کے بعد ملک بھر میں انسانی حقوق کو پامال کرنے والی رپورٹ پر ماتم کیا گیا مگر حکمراں افراد پر کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے ضمیر نے انھیں ملامت کیا ہے۔ اب جب کہ ناناوتی کمیشن اپنی قطعی رپورٹ پیش کرنے جارہا ہے تو انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ اس رپورٹ کے متن کو منظر عام پر لایا جائے تاکہ انصاف پسند عوام کو پتہ چل سکے کہ آیا حکومت کے اشاروں پر کام کرنے والے افراد نے متاثرین کے ساتھ انصاف کیا ہے یا اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ناناوتی کمیشن کو اس قطعی رپورٹ میں اپنی رائے بھی دینی ہوتی ہے اور فسادات میں ملوث خاطیوں کو سزا دینے کی سفارش کرنی ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کمیشن نے اقتدار کا ساتھ دیا ہے یا انصاف کی عظمت کو برقرار رکھا ہے۔