نالوں پر قبضہ کی نشاندہی کے باوجود برخواستگی میں لاپرواہی

قبضہ داروں کے حوصلوں میں اضافہ ، پرانے شہر میں سیاسی پشت پناہی
حیدرآباد۔6فروری(سیاست نیوز) شہر میں موجود نالوں پر قبضہ جات کی برخواستگی کے اعلانات کے بعد مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے مختلف محکمہ جات کے اشتراک کے ساتھ شہر میں نالوں کے سروے کی مہم شروع کی اور اس دوران قبضہ جات کی نشاندہی بھی کی گئی لیکن ان کے خلاف کاروائی میں کوئی پیشرفت نہ ہونے کے سبب نالوں پر قبضہ کرتے ہوئے تعمیرات کرنے والوں کے حوصلے بلند ہونے لگے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔پرانے شہر میں نالوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی ممکن ہو پاتی ہے۔ دونوں شہروں میں جی ایچ ایم سی کی جانب سے نالوں کے سروے کو یقینی بنایا گیا اور اس سلسلہ میں کئے جانے والے اقدامات میں کسی ایک محکمہ سے کام لینے کے بجائے مختلف محکموں کے عہدیداروں کوشامل کرتے ہوئے ٹیم کی تشکیل عمل میںلائی گئی لیکن اس کے باوجود بھی اس کے کوئی بہتر نتائج برآمد نہیںہو پا رہے ہیںبلکہ جن نالوں پر قبضوں کا سلسلہ جاری ہے وہ نالوں پر تعمیرات بھی جاری ہیںجنہیں کوئی عہدیدار روکنے کیلئے تیار نہیں ہے۔مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد ساؤتھ زون کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے واقف ہیں اور اپنے اعلی عہدیداروں کو بھی اس بات سے واقف کرواچکے ہیں کہ پرانے شہر کے بعض نالوں بالخصوص بہادرپورہ‘ کشن باغ کے علاوہ عطاپور وغیرہ میں نالوں پر قبضہ جاری ہیں جنہیں روکا جانا ضروری ہے لیکن اس کے باوجود صدر دفتر کی جانب سے کوئی احکام موصول نہ ہونے کے سبب وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سیاسی پشت پناہی میں کئے جانے والے ان غیر قانونی قبضوں اور تعمیرات پر بدعنوان عہدیداروں کے سبب کاروائی نہیں ہو پارہی ہے اور حکومت کے اعلانات پر مؤثر عمل آوری میں بھی ان عہدیداروں کی بدعنوانیاں ہی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ ذرائع کے بموجب متعدد شکایات اور توجہ دہانی کے باوجود شہر کے اس خطہ میں نالوں پر کئے جانے والے قبضوں کو روکنے کیلئے کوئی عہدیدار تیار نہیں ہے جس کے سبب پرانے شہر کے علاقہ میں بھی مستقبل میں بارش کے پانی کے بہائو میں مشکلات پیدا ہونے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔حالیہ عرصہ میں ہوئی بارش کے بعد شہر کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے حکومت نے متعدد اعلانات کئے تھے لیکن ان اعلانات کے بعد بھی غیر مجاز تعمیرات اور نالوں و شکم میں کی جانے والی تعمیرات میں کمی نہ ہونے سے بلدیہ اور حکومت دونوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگنے لگے ہیں۔