ناطقِ صواب و حق ابوحفص حضرت عمرفاروق ص

شہادت: یکم ؍محرم الحرام ۲۴ ہجری

ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا بے انتہاء فضل و کرم ہے کہ اُس نے ہم کو امت مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم بناکر اس دنیائے فانی میں مبعوث فرمایا۔ اور ساتھ ہی ساتھ صحابۂ عظام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین سے عقیدت و محبت کا اظہار کرنے کی توفیق بھی عطا فرمایا۔ چنانچہ اسی ضمن میں عشرۂ مبشرہ میں سے صحابیٔ رسول خلیفہ دوّم حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی ذات گرامی کے متعلق تحریر پیش خدمت ہے۔ اہلِ سنت و جماعت کا متفقہ طور پر یہ عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء عظام علیھم الصلوۃ والسلام کے بعد سب سے بڑا مرتبہ صحابۂ کرام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین کا ہے۔ یہ تمام کے تمام ایسی باعظمت و مبارک ہستیاں ہیں، جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے چہرۂ انور کو دیکھا ہے اور اُسی حالتِ ایمان میں وصال فرمایا۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبتِ بافیض سے مشرف ہوے۔
ان تمام صحابۂ عظام رضوان اﷲتعالیٰ علیہم اجمعین میں سب سے اونچا درجہ خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم اجمعین کا ہے۔ جس طرح انکی ترتیب ہے، اسی طرح اُن کے درجات بھی ہیں۔اﷲسبحانہٗ وتعالیٰ نے تمام صحابۂ عظام رضی اﷲعنہم اجمعین سے عمومی طور پر جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الحدید میں ارشاد فرمایا گیا ’’اوراﷲتعالیٰ نے تمام (صحابۂ عظام) سے جنت کا وعدہ فرمالیا‘‘۔ (سورۃ الحدید )
خلیفۂ دوم، ناطقِ صواب و حق ابوحفص حضرت سیدنا عمربن خطاب رضی اﷲتعالیٰ عنہ جنت کی اس عمومی بشارت کے باوجود باوصف خصوصی بشارت سے بھی سرفراز فرمائے گئے۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کے ذریعہ پیام اسلام کو عام کیا۔ آپ ؓ کی زبان مبارک پر حق کو جاری فرمایا اور آپ کو حق و باطل کے درمیان امتیاز کی وجہ بنادیا۔
ولادت: خلیفۂ دوم کی ولادت کے متعلق حضرت امام نووی رحمۃ اﷲ علیہ نے تحریر فرمایا کہ آپ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی۔
(تاریخ الخلفاء جلد اول صفحہ ترتالیس)
نام: ’’عمر‘‘ کنیت: ’’ابوحفص‘‘ لقب: ’’فاروق‘‘ ہے۔ نسبِ مبارک اسطرح ہے: سیدنا عمربن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی۔
سنن ابن ماجہ شریف میں آپ ہی کے حق میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا مذکور ہے: ’’ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنہا سے روایت ہے، آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ تو بطورخاص عمربن خطاب کو اسلام کی توفیق عطا کرکے اسلام کو غلبہ عطا فرما‘‘۔( باب فضل عمرؓ)
سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ، سیدنا امیرحمزہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کے اسلام لانے کے بعد چھ (۶) نبوی میں اسلام قبول کئے۔ اُس وقت آپ ستائیس سال کے تھے۔
سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث شریف ہے:’’سیدنا عبداﷲبن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جس وقت حضرت عمرؓمشرف باسلام ہوئے، حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کئے ائے پیکرحمدوثناء ﷺ! یقینًا حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے پر اہل آسمان نے خوشیاں منائیں‘‘۔(سنن ابن ماجہ شریف، باب فضل عمرؓ)
خلیفۂ دوم کے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک دن ننگی تلوار لئے غصہ کی حالت میں جارہے تھے، راستہ میں حضرت نعیم بن عبداﷲ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ کے اسلام کی خبر ابھی حضرت عمرؓ کو نہیں تھی۔ پوچھا ائے عمر! ننگی تلوارلئے کہاں جارہے ہو؟ آپ نے کہا: آج بانیٔ اسلام کا فیصلہ کردینا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو! تمہاری بہن فاطمہ بنت خطاب رضی اﷲعنہا اور بہنوئی سعیدبن زید رضی اﷲعنہ، دونوں مسلمان ہوگئے ہیں۔
خلیفۂ دوم اپنا رخ بدل کر بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا، دونوں قرآنی آیات تلاوت کررہے تھے، فورًا تلاوت قرآن موقوف کرکے بہن نے دروازہ کھولا۔ اور کہا کہ: اے عمر! کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے، کیا ابھی باز نہیں آؤگے؟ اسلام میں داخل ہوجاؤ! حضرت عمرفاروق رضی اﷲعنہ نے بآوازبلند توحید ورسالت کی گواہی دی اور حلقۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ تمام مسلمان خوشی کے مارے نعرۂ تکبیر بلند کئے۔ اس موقع پر حضرت جبرئیل علیہ السلام بارگاہِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضری دیکر عرض کئے یارسول اﷲ! عمر رضی اﷲعنہ اسلام میں داخل ہونے پر تمام آسمان والے ایک دوسرے کو مبار باد پیش کئے اور خوشیاں منائے۔
پھر حضرت عمرفاروق کی گزارش پر علی الاعلان حرم کعبہ میں مسلمانوں نے نماز ادا کی۔ (المواہب اللدنیہ )
اسلام قبول کرنے کے بعد بھی حضرت عمررضی اﷲعنہ کا تیور جلال ہمیشہ باقی رہا۔ آپ کے دل میں حضوراکرم صلی اﷲعلیہ وسلم سے کمال وارفتگی اور دین اسلام سے اٹوٹ وابستگی پیدا ہوگئی۔یہی وجہ تھی کہ ابلیس لعین بھی آپ کی شخصیت کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔ اورجہاں کہیں آپ تشریف لے جاتے، وہاں سے وہ راہ فرار اختیار کرجاتا تھا۔خلیفۂ دوم رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے حق و انصاف کے قیام، حدود اور شرعی قوانین اسلام کے نفاذ کیلئے اپنوں اور غیروں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔ غیرمسلموںکو بھی جان و مال کا تحفظ فراہم کیا۔اکثر مدینہ طیبہ میں وفات پانے اور جام شہادت نوش کرنے کی دعا کیا کرتے۔ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:’’اے اﷲ! تو مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما اور اپنے حبیب کے شہر مقدس میں مجھے وفات عطا فرما‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینۃ)
وفات: دعائے حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی یہ تاثیر رہی کہ وفات غرّہ محرم الحرام ۲۴ ہجری کو مدینہ منورہ میں ہی ہوئی اور تدفین روضۂ رسول صلی اﷲعلیہ وسلم میں ہوئی۔اﷲتعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو عدالت فاروقی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhahsmi7@gmial.com
صوفی محمد عبدالرحمن تبریز پاشاہ
حضرت صوفی شاہ محمد عبدالشکور قادری ؒ
ممتاز عالم دین صوفی شاہ محمد عبدالقادر قادری رازؔؒ واعظ سرکار عالی مسجد چوک کے فرزند اکبر حضرت شیخ طریقت الحاج صوفی شاہ محمد عبدالشکور قادری چشتیؒ کی ولادت ۱۱؍ ربیع الاول ۱۳۰۷؁ ھ کو شہر حیدرآبا دکن میں ہوئی ۔ آپ حضرت حاجی میر عالم شاہ صوفی مجددی نقشبندیؒ خلیفۂ خاص حضرت نقشبند دکن علامہ سعداللہ شاہ نقشبندی مجددیؒ ( گھانسی بازار) کے نبیرہ ہیں۔ آپ عالم ، فاضل ، منشی اور حکیم ہونے کے علاوہ اردو عربی فارسی اور تلگو زبان پر عبور رکھتے تھے ۔ ۱۳۴۷؁ ہجری میں آپ کا محترمہ عصمت النساء بیگم بنت سید شریف الدینؒ کے ساتھ عقد نکاح ہوا اور ۱۳۵۳؁ ھ کو آپ کے والد محترم حضرت صوفی شاہ محمد عبدالقادر رازؔ نے بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا اور اپنا جانشین بنایا ۔ آپؒ نے اپنے فرزند حضرت الحاج صوفی شاہ محمد عبدالرزاق قادری چشتی کو ۱۹۶۳؁ء کو بیعت و خلافت سے سرفراز کیا اور اپنا جانشین اور حضرت سلطان الواعظینؒ کی درگاہ کا سجادہ نشین و متولی منتخب فرمایا۔ تقریب جانشینی میں اس وقت کے ممتاز علماء و مشائخین نے شرکت فرمائی ۔ حضرت ممدوحؒ کا ۲۶؍ ذی الحجہ ۱۳۴۸؁ھ کو وصال ہوا اور صوفی منزل مصری گنج میں آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔ حضرت کے سالانہ تقریب عرس کا ۲۵؍ ذی الحجہ کو درگاہ شریف صوفی منزل میں انعقاد عمل میں آتا ہے ۔