ملک میں مسلمانوں اور دلتوں کو مذہب کے نام پر نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ، پروفیسر اپوروا آنند کا لکچرر
حیدرآباد۔3اگست(سیاست نیوز) جس طرح نازیوں نے یہودیوں پر مظالم ڈھائے تھے جس طرح ترکی میں رومانی عیسائی کے ساتھ سلوک کیاگیا تھا اسی طرح کے حالات ہمارے ملک میں بھی پیدا کئے جارہے ہیں اور ان حالات میں ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کو نشانہ بنانے کاکام کیاجارہا ہے ‘ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات پر بولنے کی جرات بھی نہیںکی جارہی ہے اور جب کبھی کوئی ان واقعات پر اپنی زبان کھولتا ہے تو اس کو جواب میں 1984کے سکھ فسادات کی یاد دلائی جاتی ہے اور ظلم وزیادتی کے واقعات کو ماضی کے اوراق سے جوڑ کر ردعمل کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں جو واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ردعمل کے طور پر ان واقعات کوپیش کرنے والے نازیوں کے طرز پر ڈھائی جانے والے مظالم کی حمایت کررہے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر وسماجی جہدکار اپوروا آنند نے آج یہاں حیدرآباد میں منتھن کے زیر اہتمام ’’ اشوٹز کو روکنے کیلئے روشنی‘‘ کے عنوان پر منعقدہ بات چیت سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ہٹلر نے یہودیوں کوگیس چیمبرمیںڈال کر ہلاک کردیا۔ انہوں نے مزیدکہاکہ جرمنی میں بنے میوزیم میں جب چھوٹے بچوں کے جوتوں ‘ پھٹے کپڑوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیںگیس چیمبر میں مرنے والوں کی موت کا منظر یاد آتا ہے ‘ مگر جب یہودیوں کو موقع ملا تو انہوں نے اپنی دل دہلادینے والی اموات سے سبق سیکھنے کے بجائے فلسطین کو بے قصور لوگوں کا قبرستان بنانے میںدیر نہیں کی ۔ انہوں نے کہاکہ میںحیران ہوں کس طرح یہودی اپنے ساتھ ہوئے سلوک کو بھول گئے ۔ انہوں نے کہاکہ یہودیوں کے طرز عمل کو بعض لوگ ردعمل کا نتیجہ قراردیتے ہیںمگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو قوم جن حالات سے گذری ہے وہی کام دوسروں کے ساتھ کررہی ہے ۔ پروفیسر اپوروا آنند نے ملک کے حالات کو بھی اسی طرح کا قراردیتے ہوئے کہاکہ مہاتما گاندھی کا قتل کیا گیا مگر کچھ لوگ باپو کے قاتلوں کو حمایت میں کھڑے ہوکر انہیں درست قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم ایک طرف تو گاندھی جی کا بھجن سنتے ہیں اور دوسری طرف انہیں قتل کردیتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ایسی سونچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ پہلے بھگوا پرچم کے ساتھ ہندوتوا کا نعرے دیا جاتا تھا مگر پچھلے چارسالوں میںمنظر بدل گیاہے اب نعرے راشٹرا کا دیا جاتا ہے اورہاتھوں میں ترنگا ہے مگر اس عظیم ترنگے کا استعمال کہاں ہورہا ہے اس کو اندازہ کسی کو بھی نہیںہے۔ اگر کوئی ترنگا ہاتھوں میں تھامے راشٹر کا نعرہ لگانے والو ںکی مخالفت کرتا ہے تو اس کو غدار قراردیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے حالات دھیرے دھیرے نفرت کی آگ میں جھونکنے کا کام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کسی کا بھی حق نہیں ہے کہ اخلاق ائمہ کے فریج میں رکھا گوشت کس جانور کا ہے اس پر وبال کھڑا کرے اور ایک بے قصور کو جان سے ماردے۔ ایسا کوئی نہیںکرسکتا کے ٹرین میںجارہے جنید کے سر پرٹوپی دیکھ کر معصوم سے الجھے اور کسی بہانے سے اس کو اس قدر پیٹے کے معصوم کی موت ہوجائے۔ پروفیسر اپوروا آنند نے پچھلے چار سالوں میں جس طرح کا ماحول بنایاگیا ہے اس سے نازی دور کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم ’اشوٹز ‘جیسا میوزیم تو تیار نہیںکرسکتے مگر جس قسم کی نفرت پھیلانے کی سازشیں کی جارہی ہیں اس کے خلاف تو بول سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم کھل کر بولنے کی ضرورت ہے ہندوستان میں مسلمانوں اوردلتوں کومذہب کے نام پر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت نہیںہے کہ پڑوسی ملک پاکستان او ربنگلہ دیش میں ہندوئوں کے ساتھ کس طر ح کاسلوک کیاجارہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ ہماری تہذیب نہیں ہے کہ ہم پڑوسی ممالک میں کے حالات کو مثال بناکر ہمارے ملک کے واقعات کو اس کے ردعمل کے طور پر پیش کریں۔ انہوں نے کہاکہ جب کبھی بھاگلپور سے لے کر گجرات تک کے فسادات کی بات کی جاتی ہے تو سماج کاکچھ حصہ کہتا ہے کہ ہم کشمیر کے ہندو پنڈتوں پر کئے گئے مظالم کوکس طرح بھول سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کی مثالوں سے ہم نفرت کو فروغ دینے کاکام کررہے ہیں۔ پروفیسر اپوروا آنند نے کہاکہ مجھے معصوم جنید کے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا ۔ انہوں نے بتایاکہ جنید کے بھائی اور گائوں کے مسلمانوں نے اس افسوس ناک واقعہ کے بعد کرتا پائجامہ پہنا چھوڑ دیا ۔ گھر سے دور کہیںجاتے ہیںتو سر پر ٹوپی نہیں پہنتے ۔ انہوں نے کہاکہ بقر عید آنے والی ہم پہلے اپنے دوست احباب سے بقر میں دی گئی قربانی کے جانور کے گوشت کی توقع کرتے تھے مگر اب میں نہیں سمجھتا کہ جنید جیسے بے شمار متاثرین کے گھر والے اپنے بچوں اور گھر والوںکیلئے ٹفن میںایک گوشت کی بوٹی بھی رکھ کر دیتے ہونگے ۔ پروفیسر اپوروا آنند نے کہاکہ ہمیں اس عظیم ملک کے حالات کو جرمن جیسے بننے سے روکنے کیلئے اس بات کاکھل کرذکر کرنا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمان او ردلت برادری فسطائی طاقتوں کے نشانے پر ہیں‘ ان پر مظالم ڈھائے جارہے اور بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو ڈھانکنے کے لئے دیگر واقعات کو ان سے جوڑنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ہمیں اس کام کی پہل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک اور ’اشوٹز ‘ بننے سے روکا جاسکے۔