مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
کائنات کا ایک خوبصورت نظام ہے اوریہ سارانظام انسانوں کیلئے بنایا گیاہے،کائنات کی ہر شئی سے زندگی کا حسن جھلکتاہے لیکن انسان حسن تخلیق کا اعلی شہکارہے۔’’یقینا ہم نے انسان کو بہترین تخلیق سے مزین کیاہے‘‘(التین:۴)انسانی تخلیقی ساخت کا سیدھا پن ،درازقامتی ،اعضاء وجوارح کی متناسب وموزوں تخلیق، حسن تناسب کے ساتھ اندورونی وبیرونی اعضاء کی ترتیب اورانکی کارکردگی ،عقل وفہم ،حکمت وتدبر،سمع وبصرودیگرطاقتیں جیسے قوت شامہ ،قوت ذائقہ، قوت لامسہ وغیرہ یہ سب اس کو حسن تخلیق کی انفرادیت بخشتے ہیں۔اللہ سبحانہ نے ہر انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے انکو بروئے کار لا کر کچھ انسان کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں، اور کچھ اپنے اوراپنے خاندان کے گزربسرکا سامان کر لیتے ہیں،اللہ سبحانہ کی عطاکردہ صلاحیتوں کی وجہ انسانوں کو جینے کا حوصلہ ملتاہے اوراپنے خالق ومالک کی معرفت حاصل کرنے اوراسکی اطاعت بجالانے کے راستے کی رہبری ہوتی ہے ۔الغرض کرئہ ارض پر انسان اللہ سبحانہ کی تخلیق کا ایک عظیم کرشمہ اوراسکی قدرت کا عظیم مظہر ہے،کائنات کا سارانظام بھی حسن قدرت کا شاہکارہے،اسلئے نہ تو نظام کائنات کی کسی شئی سے فطرت کے خلاف چھیڑچھاڑکی جاسکتی ہے نہ انسانی جان اسلامی نظام قانون کے بغیرلی جاسکتی ہے۔’’جوشخص کسی کو بغیراسکے کہ اس نے کسی کا قتل کیا ہویا زمین میں فسادمچایا ہو،قتل کرڈالے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے سارے انسانو ں کا قتل کیا اورجو کسی ایک انسان کی جان بچائے اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی‘‘(المائدۃ:۳۲)
انسانی جان قابل احترام وقابل تکریم ہے لیکن اس وقت انسانی جان ہرشئی سے ارزاں ہے،ناحق کسی کا جان لینا یا اپنے ہاتھوں اپنی جان تلف کرنا خالق کائنات کی مرضی کے یکسرمنافی ہے،حیات وموت کا مالک اللہ سبحانہ ہے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سبحانہ ربوبیت کے استدلال میں نمرودکے سامنے کہا’’میرا رب وہ ہے جو زندگی دیتا ہے اورموت‘‘(البقرۃ:۲۵۸)
اگرکوئی ناحق کسی انسان کا قتل کرتا ہے یا اپنے ہاتھوں خود اپنی جان لیتاہے تو گویا وہ اللہ سبحانہ کے اختیارات میں مداخلت کا مرتکب ہوتاہے ۔ناحق کسی کا جان لینا یا خودکشی کرلینا خدائی اختیارات کو چیالنج کرنا ہے ،ارشادباری ہے’’اپنے آپ کو قتل مت کرو!یقینا اللہ سبحانہ تم پر بے نہایت مہربان ہے ‘‘(النساء:۲۹) ’’اپنے آپ کو قتل مت کرو ‘‘کے حکم سے خودکشی بھی حرام ہے اورناحق کسی کا جان لینا بھی گناہ کبیرہ ہے ،چنانچہ امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ ولا تقتلوا انفسکم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ کہ یہ آیت پاک کسی کو ناحق قتل کرنے اورخودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا درجہ رکھتی ہے’’ یدل علی النہی عن قتل غیرہ وعن قتل نفسہ بالباطل ‘‘(التفسیر الکبیر۱۰؍۵۷)امام بغوی رحمہ اللہ نے ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃکی تفسیر خودکشی سے کی ہے ’’وقیل:اراد بہ قتل المسلم نفسہ‘‘(معا لم التنزیل ۱؍۴۱۸)۔معاصی کا ارتکاب بھی گویا اپنے آپ کو قتل کرنے کے مترادف ہے اسلئے اسلام اس سے بھی اجتناب کی سخت تلقین کرتا ہے، کیونکہ انسان معصیت کی زندگی گزارکر ہلاکت کے راستہ پر چل پڑتاہے ۔حدیث پاک میں ایک شخص کا تذکرہ ملتاہے کہ اس نے ایک غزوہ میں اپنی جواں مردی وبہادری اوردشمن کے مقابلہ میں شجاعت وپامردی کے جوہر دکھا ئے ،دشمنوں سے نبرآزما ہوتے ہوئے شدید زخمی ہوگیا ،زخموں کی تاب نہ لاکر صبرکا دامن ہاتھ سے چھوڑبیٹھا ،بے برداشت ہوکر خودکشی کرلی ،چونکہ اس نے موت کی طرف پیش قدمی کی اسلئے اس پر جنت کے دروازہ بندکر دئے گئے ۔یہ بھی فرمایا کہ خودکشی نے اسکے اعمال ضائع کردئے ۔(مفہوم حدیث ،بخاری :کتاب المغازی )
خودکشی کے بارے میں جواحادیث پاک واردہیں وہ مختلف کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہیں(بخاری ۱؍کتاب الطب ۔ :۵۴۴۲،مسلم ،کتاب الایمان، ۱۰۳،طبرانی :۳۳۱۱،بیہقی شعب الایمان : ۵۳۶۲)خود کشی سے متعلقہ ساری احادیث کا خلاصہ اس حدیث پاک میں آگیا ہے جو حضرت ثابت بن ضحاّک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’ جس نے جس چیزکے ساتھ خودکشی کی ہو جہنم کی آگ میں وہ اسی چیزکے ذریعہ عذاب دیا جاتا رہیگا ومن قتل نفسہ بشئی عذب بہ فی نار جہنم ‘‘(ابوداؤد کتاب الایمان والنذور۳۲۵۷)۔معاصی ومحرمات پر عذاب کی وعیدواردہے لیکن خودکشی ایک ایسا گناہ ہے جس کو اس تکلیف سے دوزخ میں باربار گزاراجائے گا،العیاذباللہ۔
نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس سراپا رحمت ہے،لیکن آپ ﷺ نے اس شخص کی جنازہ کی نماز نہیں پڑھائی جس نے اپنے آپ کو نیزہ سے ہلاک کرلیا تھا،أتیی النبی ﷺبرجل قتل نفسہ بمشاقص فلم یصل علیہ (مسلم: ۱؍کتاب الجنائز۹۷۸)ایک ایسی ہی روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا ’’کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھا ؤں گا۔ اما انا فلا اصلیی علیہ ( النسائی :۱؍کتاب الجنائز۱۹۶۴)مرتکب کبائر کی نماز جنازہ میں تعزیرا اصحاب فضل اورقوم کے مقتداء شرکت نہ کریں تو بہتر ہے تاکہ عبرت ہو،لیکن نماز جنازہ ضرورت پڑھی جائے گی عامہ اصحاب کو اسکا اہتمام ضرورکرنا چاہئے۔ علامہ سنوسی لکھتے ہیں:وینبغی لاہل الفضل ان یجتنبواالصلاۃ علی المبتدعۃ،ومظہری الکبائر،ردعا لامثالہم(صحیح مسلم مع شرحہ اکمال اکمال المعلم۳؍۳۹۷) علامہ انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے فیض الباری شرح بخاری ۳؍۷۵ میں اسی طرح کی صراحت کی ہے۔
مختلف اسباب ووجوہ کی بناخودکشی کے واقعات رونما ہوتے ہیں:ذہنی تناؤ اوردباؤ ،کبھی جنون ،کبھی مایوسی وقنوطیت ،کبھی مصائب وآلام کا ہجوم ،کبھی فقرومحتاجی ،غربت وتنگ دستی ،کبھی امراض کی کثرت یا تکلیف دہ مرض کی شدت ،کبھی آسمانی وسلطانی آزمائش وامتحان وغیرہ جیسے عوامل خودکشی کے محرک تسلیم کئے جاتے ہیں ۔مجنون اسلامی احکام کے روسے مکلف نہیں ،اس سے یہ غلطی سرزد ہوتی ہو توعنداللہ اسکا یہ عمل ان شاء اللہ قابل گرفت نہیں ہوگا بشرطیکہ اسکا جنون دائمی ہو،لیکن دیگراور جتنے عوامل خودکشی کی وجہ کے طورپرمانے جاتے ہیں وہ سب عنداللہ بازپرس کا باعث ہیں۔چونکہ خودکشی اسلام میں ناجائزوحرام ہے اسلئے وہ گناہ کبیرہ کے مرتکب قرار پائیں گے ،اورجو وعیدقرآن وحدیث میں انکے لئے واردہے وہ اسکے مستحق ہوں گے،دل شکن حالات میں صبرایک واحد راستہ ہے جوتسکین خاطرکا باعث ہے،اللہ سبحانہ نے اسکی تلقین اپنے محبوب پیغمبرسیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کوبھی کی ہے اورایمان والوں کو بھی’’اے نبی ﷺ آپ صبرکریں اورآپ کا صبرکرنا توفیق الہی پر موقوف ہے،اورانکے حال پر آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں اورجو کیدومکریہ کرتے رہتے ہیں ان سے آپ دل گرفتہ نہ ہوں ،یقین رکھیئے اللہ سبحانہ متقین اورمحسنین کے ساتھ ہے‘‘(النحل: ۱۲۶؍۱۲۷)۔مشکل حالات میں نماز اورصبرسے مددحاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیاہے’’کہ بے شک اللہ تعالی کی معیت صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘(البقرہ:۱۵۳)یہ دنیا دارالامتحان ہے، کسی نہ کسی صورت میں امتحان وآزمائش کے مراحل سے گزرنا اس دنیا کا لازمہ ہے ، زندگی دوحال سے خالی نہیں ،یا تووہ راحت وآرام میں بسرہوگی یا تکلیف وپریشانی میں۔ لیکن سنت الہی یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان کی زندگی میں یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں،بسااوقات عیش وتنعم کے وسائل سے مالامال افراد چین وسکون سے محروم رہتے ہیں اور ایسے افراد بھی ملتے ہیں جوراحت وآرام کے اسباب سے بظاہر محروم لیکن اطمینان قلب کی نعمت مل جانے سے پر سکون زندگی گزارتے ہیں، منشاء الہی یہ ہے کہ راحت وآرام کے لمحات میسرہوں تو شکرانہ میں سرتاپا عجزوانکساری اورعبدیت وبندگی کا عملی پیکربنے رہیں، قلب کو جذبات تشکرسے معموررکھیں ،سجودنیازلٹا تے ہوئے جبین نیازکو خاک آلود رکھیں،مصائب وآلام نے گھیررکھا ہوتو اللہ کی رضا کیلئے صبرکا دامن تھامے رہیں۔اللہ کی حرام کردہ اشیاء میں وقتی لذت کا احساس انسان کو محرمات کے ارتکاب میں مبتلا کرتاہے،محرمات ومعاصی سے اجتناب بھی صبرہے ،چونکہ اس میں وقتی وعارضی لذت کو قربان کرکے اللہ کی رضاکی طلب انسان کو گناہ سے باز رہنے پر آمادہ رکھتی ہے اسلئے یہ بھی صبرہے۔الہی حدودواحکام کی رعایت بھی مشقت طلب ہوسکتی ہے کبھی نفس کی سستی وکاہلی کی وجہ اورکبھی دوسروں کی طرف سے احکام اسلام کی بجاآوری میں دشواری ورکاوٹ یا راہ حق پر قائم رہنے پر ڈروخوف کا ماحول بنائے رکھنے کے احوال کی وجہ ۔ظاہرہے ان جیسے دشوار گزارحالات میں استقامت وپامردی کے ساتھ اسلامی ہدایات کو سینے سے لگائے رکھ کر زندگی گزارنے کا عزم وارادہ اوراس راہ پر بے خطرچل پڑنے کا مزاج بھی صبرکہلا تاہے۔اللہ سبحانہ کی مرضیات کو پسندخاطر بنا لینا خواہ نفس انسانی پر کتنا ہی گراں کیو ں نہ ہواوراللہ سبحانہ کی نا مرضیات سے حد درجہ اجتناب واحتیاط خواہ اس میں کتنا ہی کیف وسرور کیوں نہ ہوبعضوں نے اسکو بھی صبرسے تعبیرکیا ہے۔
اسلام کے احکام حفظ وآمان ،خیروسلامتی ،امن وعافیت کے ضامن ہیں،اسلامی تعلیمات اسکے افکارونظریات فردومعاشرہ سب کیلئے باعث رحمت ہیں،صبروشکر،تحمل وبرداشت ،امن وآشتی ،احترام نفس وجان اوراحترام انسانیت اسلام کے وہ زرین اصول ہیں جن پر عمل انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی میں راحت ورحمت کے دروازے کھولتا ہے۔
مسلم سماج میں ناحق قتل وخون اورخود کشی کے واقعات نادرتھے لیکن اب آئے دن اس رجحان میں اضافہ دیکھا جارہا ہے،حال ہی میں ایک مسلم ڈاکٹرکی تیسری شادی پر اسکے نسبتی برادر(دوسری بیوی کے بھائی )کا قاتلانہ حملہ اور اس بے دردانہ قتل کے واقعہ سے متاثرہوکر اسکے دوسرے دن تیسری بیوی دودن کی نئی دلہن کا خودکشی کرلینا مسلم سماج کیلئے ایک تازیانہ عبرت سے کم نہیں۔ناحق قتل وخون اورخودکشی کے واقعات کی روک تھام کیلئے موثراقدام کی ضرورت ہے، سماجی سطح پر اسلامی احکامات کے دوری کے نتیجہ میں نفسیاتی دباؤ میں اضافہ دیکھا جارہاہے ،صبروبرداشت کے فقدان کی وجہ بھی یہ دونوں طرح کی وارداتیں مسلم سماج کو داغدارکررہی ہے۔ تعلیم وتربیت ان جیسے واقعات کے تدارک کا بہترین حل ہے ،وہ علاقے جہاں تعلیم وتربیت کا فقدان ہے اورجہاں ناحق قتل وخون کی وارداتیں انجام پاتی رہتی ہیں ان بستیوں میں شخصی ملاقاتوں اوراجتماعی جوڑکے ذریعہ اس پر قابو پانے کی کوشش کی جانی چاہئیے۔خودکشی کی واقعات کے پس پردہ محرکات کا افراد خاندان کو جائزہ لینا چاہیئے اورایسے بچے جو نفسیاتی دباؤکے اثرات سے متاثردکھائی دیں انکی طرف توجہ سے غفلت نہیں برتی جانی چاہئیے،کسی اچھے ماہرنفسیات سے رجو ع کرنے اورانکے کچھ مسائل ہو ں تو انکو فوری حل کرنے اورکتاب وسنت کی روشنی میں پوری حکمت عملی کے ساتھ ہر دویعنی ناحق قتل وخون کے مرتکبین یا اس طرح کا انتقامی مزاج رکھنے والے افرادکے ساتھ مایوسی یا کسی اورنفسیاتی پہلوسے متاثررہ کر خود کشی کا رجحان رکھنے والوں کی کونسلنگ کی جانی چاہئیے۔