نئے پولیس اسٹیشنوں کے بورڈس سے اردو لاپتہ

آصف جاہی دور کے پولیس اسٹیشنوں میں آج بھی اردو تختیاں موجود
حیدرآباد ۔ 12 ۔ ستمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : اردو زبان کی ترقی و ترویج کے حکومت کے وعدے اتنے ہی کھوکھلے ثابت ہوتے رہے ہیں جتنا کہ سرکاری اسکیمات سے مسلمانوں کے ہر مستحق خاندانوں کو مستفید کرنے کے دعوے ، حکومت کے دعوؤں کو اگر انصاف و عمل کے میزان میں تولا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آئے گا کہ حکومت نے مسلمانوں کے تعلق سے امتیاز اور فریب کو پوری ایمانداری سے تولا ہے جیسا کہ وہ چاہتی ہے کہ یہ دونوں چیزیں مسلمانوں کو برابر ملنی چاہئے ۔ خاص کر اردو زبان کے تعلق سے سرکاری عہدیداروں کا تعصب پسندانہ اور چشم پوشی کا رویہ تبدیل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ اگرچہ شہر کے بیشتر سرکاری دفاتر ، محکمہ جات ، ریلوے ، بس اسٹیشن وغیرہ کے سائن بورڈس پر بھی اردو تحریر نظر نہیں آتی ۔ مگر آج ہم آپ کو صرف پولیس اسٹیشنوں کے سائن بورڈ کے بارے میں بتانا چاہیں گے جہاں حضور نظام کے زمانے میں سارے پولیس اسٹیشنوں کے نام دیگر زبانوں کے ساتھ اردو تحریر جلی حرفوں میں درج کیا جاتا تھا ۔ مگر آج نئے پولیس اسٹیشن تو دور وہ پولیس اسٹیشن جو حضور نظام کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے ۔ ان کے سائن بورڈ سے بھی اردو تحریر بتدریج معدوم ہوتی جارہی ہے جو کہ زبان اردو کے خلاف چلائی جارہی سازش کا ہی ایک حصہ ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ زبان اردو کو ایک مخصوص طبقے سے جوڑ کر اس کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ۔ حالانکہ آزادی سے قبل یہ زبان ملک کے ہر شہری کی آن بان اور شان ہوا کرتی تھی ملک کے لیے مرمٹنے کا جذبہ رکھنے والا ہر شہری چاہے وہ کسی مذہب کا ہو اپنے انقلابی جذبات کا اظہار اردو زبان میں ہی کرنے کو فخر تصور کرتا تھا ۔ اردو زبان مذہبی روا داری کی بہترین مثال ہوا کرتی تھی اس کی ایک مثال منگل ہاٹ کے علاقہ میں واقع 73 سالہ قدیم مندر ہے ۔ جس پر مندر کا نام ایک پتھر پر اردو میں کندہ ہے ۔ یہ تحریر آزادی سے پہلے کے شہریوں کی روا داری سوچ اور قومی یکجہتی کی مظہر ہے ۔ جہاں تک پولیس اسٹیشنوں پر اردو سائن بورڈ کا معاملہ ہے تو چند ایک پولیس اسٹیشن پر اردو تحریر درج ہے تاہم سوال یہ ہے کہ چند ایک ہی پولیس اسٹیشن کے نام ہی اردو میں کیوں ؟ تمام پولیس اسٹیشن کے نام اردو میں درج کیوں نہیں ؟ جس طرح تمام پولیس اسٹیشن کے سائن بورڈس خواہ وہ نیا ہو یا پرانا ، پر تلگو اور انگریزی میں نام تحریر کیا گیا ہے اسی طرح تمام پولیس اسٹیشنوں کے نام اردو میں بھی درج کیوں نہیں کیا جاتا ؟ حکومت کے اعلانات کے مطابق سرکاری سطح پر ہی اردو پر عمل آوری نہیں کی گئی تو خانگی اور عوامی سطح پر اس عمل آوری کو کون خاطر میں لائے گا ؟ مثال کے طور پر نظام دور حکومت کے پولیس اسٹیشن جیسے حسینی علم پولیس اسٹیشن ، کاماٹی پورہ پولیس اسٹیشن ، چندرائن گٹہ پولیس اسٹیشن ، نمبولی اڈہ پولیس اسٹیشن ، مشیر آباد پولیس اسٹیشن ، چادر گھاٹ پولیس اسٹیشن وغیرہ ایسے پولیس اسٹیشنس ہیں جہاں آج بھی پولیس اسٹیشنوں کے نام کی قدیم تختی اردو میں موجود ہے جسے مزید عیاں کرنے کی ضرورت ہے ۔ تاہم شہر میں جو نئے پولیس اسٹیشن تعمیر ہورہے ہیں خاص کر سائبر آباد حدود میں موجود پی ایس کے سائن بورڈ اردو تحریر کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اس لیے شہریان حیدرآباد خاص کر محبان اردو کا تلنگانہ کی پہلی حکومت کے پہلے چیف منسٹر سے مطالبہ ہے کہ وہ اس زبان سے انصاف کرتے ہوئے تمام پی ایس کے سائن بورڈس کو اردو میں بھی تحریر کروانے کے احکامات جاری کریں کیوں کہ عوام کا خیال ہے کہ ریاست تلنگانہ کو پہلی بار ایسا چیف منسٹر ملا ہے جو واضح طور پر اردو زبان میں خطاب کرسکتا ہے ۔ بول سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے ۔ جب کہ ان کے پیش رو میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی تھی ۔ بہرحال محبان اردو کو امید ہے کہ کے سی آر حکومت سنجیدگی سے اس مسئلے پر توجہ دیتے ہوئے شہر کے تمام پی ایس کے سائن بورڈس اردو میں تحریر کرانے کے احکامات جاری کرتے ہوئے اس پر عمل آوری کو یقینی بنائیں گے ۔۔