نئے تعلیمی سال کے آغاز کے باوجود درسی کتب عدم دستیاب

اسکول انتظامیہ اور طلبا کو پریشانی ۔ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے
حیدرآباد۔28مارچ (سیاست نیوز) حکومت نے تعلیمی کیلنڈر میں تبدیلی کا فیصلہ کرکے نئے تعلیمی سال کا آغاز تو کردیا لیکن بازاروں میں درسی کتب دستیاب نہیں ہیں اور نہ سرکاری درسی کتب کی سربراہی عمل میں لائی گئی ہے جس کے سبب اسکول انتظامیہ اور طلبہ دونوں پریشان ہیں کہ آخر کیا کیا جائے اور تعلیمی سال کے دوران کیا پڑھایا جائے؟ حکومت نے اسکول‘ جونئیر کالج کے علاوہ ڈگری کالج کے تعلیمی سال میں تبدیلی کے ساتھ کیلنڈر تو جاری کردیا لیکن ابھی تک درسی کتب کی سربراہی عمل میں نہیں لائی گئی اور جو مدارس خانگی ناشرین کے کتب استعمال کرتے ہیں انہیں ابھی تک کتب نہیں ملے جو ان کیلئے مشکل کا سبب ہے لیکن جو اسکول خود اپنی کتب شائع کرتے ہیں انہیں کوئی مشکل نہیں ہے لیکن سرکاری اور نیم سرکاری مدارس کے طلبہ ‘ اولیائے طلبہ اور اساتذہ پریشان ہیں کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ کیا تعلیم دی جائے اور انہیں کس طرح سے تعلیمی سرگرمیوں سے مربوط رکھا جائے۔ خانگی ناشرین جو اپنی درسی کتب اسکولوں میں فروخت کرتے ہیں وہ بھی پریشان ہیں کہ کس طرح درسی کتب کی شمولیت عمل میں لانے اقدامات کئے جائیں کیونکہ تعلیمی سال شروع ہو چکا ہے اور تعلیمی سال کے دوران طلبہ کے سلسلہ تعلیم کاآغاز کیا جانا ناگزیر ہوتا ہے۔ سرکاری اسکولوں کے ذمہ دار حکومت کے رویہ پر برہمی کا اظہار کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے تعلیمی سال کا جس طرح سے آغاز کیا ہے اس اعتبار سے تعلیمی سال شروع اور ختم ہونے لگ جائیں تو حالات انتہائی دگرگوں ہوجائیں گے اورطلبہ کی مہارت اور اساتذہ کی صلاحیتیں ناکارہ ہوجائینگی ۔ سرکاری اسکولوں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ریاست میں نئے تعلیمی سال کا آغاز بہ اعتبار تعلیمی کیلنڈر 21مارچ سے ہو چکا ہے لیکن اسکولوں اور بازار میں کتب موجود نہیں ہے اور اگر اب انکی فوری سربراہی عمل میں لائی جاتی ہے تو اس کی تقسیم کیلئے 2ماہ درکار ہوں گے۔ محکمہ تعلیم کے عملہ کا کہنا ہے کہ اساتذہ جو اسکولوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں وہ ایس ایس سی امتحانات میں خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں ان پر کتب کی تقسیم کا بوجھ عائد کیا جانا درست نہیں ہے لیکن موجودہ صورتحال میں جن پریشانیوں کا سامنا طلبہ اور سرپرست کر رہے ہیں ان سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اولیائے طلبہ کا سوال ہے کہ 21 مارچ سے شروع تعلیمی سال سے طلبہ کو کیا فائدہ ہوگا ۔ علاوہ ازیں خانگی اسکولوں طلبہ کے سرپرستوں کی یہ شکایت عام ہوتی جا رہی ہے کہ اسکولوں میں فروخت کی جانے والی درسی کتب پر اعظم ترین قیمت تحریر نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہے تو زیادہ قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔ حکومت نے چھٹویں جماعت کے بعد سے سرکاری درسی کتب کا لزوم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اس فیصلہ پر عدالتی رسہ کشی کے سبب عمل آوری نہیں ہو رہی ہے اور جب حکومت سرکاری اسکولوں کے طلبہ کو تعلیمی سال کے آغاز سے قبل درسی کتب سربراہ نہیں کرسکتی تو کیا خانگی اسکولوں کو حکومت کی جانب سے شائع کردہ کتب کی سربراہی ممکن ہو پائے گی؟