نئی لوک سبھا میں مجرم ارکان

قانون ساز خود جہاں قانون شکن ہوں
کیا حال ہو اس ملک کا اندازہ لگائیں
نئی لوک سبھا میں مجرم ارکان
ہندوستان کی 16 ویں لوک سبھا بدبختی سے مجرموں کا مرکز بن رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا میں داخل کردہ امیدواروںکے حلفناموں سے واضح ہوتا ہیکہ 34 فیصد نئے ارکان پارلیمنٹ فوجداری الزامات کا سامنا کررہے ہیں اور ان کے ساتھ متمول ترین ارکان بھی ہیں جن کو ہندوستان کے غریب رائے دہندوں کے احساسات و جذبات کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ لوک سبھا میں ہر پانچ سال بعد مجرم ٹولیوں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 2009ء کی لوک سبھا جہاں 30 فیصد ارکان مجرمانہ ریکارڈ رکھتے تھے، وہیں 2004ء کی لوک سبھا میں فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے ارکان کی تعداد 24 فیصد تھی۔ نئی لوک سبھا میں بی جے پی کے 288 ارکان ہیں۔ ان میں سے ہر پانچواں رکن سنگین مجرمانہ الزامات کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ آر جے ڈی کے 4 ارکان پارلیمنٹ پر مقدمات ہیں تو شیوسینا کے 18 کے منجملہ 15 ارکان بھی فوجداری کیسوں میں ملوث ہیں۔ نیشنلسٹ کانگریس (این سی پی) 15 ارکان کے منجملہ 4 کا ریکارڈ سنگین مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا حامل ہے۔ نامزد وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایک سے زائد مرتبہ یہ کہا تھا کہ ’’مودی سرکار میں مجرموں کا کوئی وجود نہیں رہے گا۔ سیاست سے مجرم عناصر کا صفایا کرنے کی ان کی مہم حکومت بنانے کے بعد شروع ہوگی۔ وہ بی جے پی اور این ڈی اے سے تعلق رکھنے ارکان پارلیمنٹ کو بھی نہیں بخشیں گے جن کا ریکارڈ مجرمانہ کارروائیوں سے بھرا ہوا ہوگا۔ مودی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ پارلیمنٹ سے ایسے تمام ارکان کا صفایا کردیں گے جو مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ 16 مئی کے بعد ملک کی سیاست کو صاف ستھرا بنانے کا عزم رکھنے والے نریندر مودی کو ایوان میں اپنی ہی پارٹی کے مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ارکان کا سامنا ہوگا اور ان میں سے کئی ارکان مودی کابینہ میں اہم عہدہ حاصل کریںگے چراغ تلے اندھیرا یوں ہی برقرار رہے تو سیاست کو مجرموں سے پاک بنانے کا عزم انتخابی جلسوں کے شور میں ہی دب کر رہ جائے گا۔ ماں اور بیٹے (سونیا گاندھی اور راہول گاندھی) کی حکومتوں نے ملک کو تباہ کردیا ہے کے نعرے پر مودی نے اقتدار تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب وہ اپنی حکومت کو مجرموں سے کس حد تک پاک رکھ سکیں گے یہ ان کے قول و عزم کا مظہر ہوگا۔ پارلیمنٹ کو مجرم عناصر پاک کردینے کے بیان، سابق چیف منسٹر یو پی اور صدر بی ایس پی مایاوتی نے کہا تھا کہ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘نئی لوک سبھا کے تعلق سے حقیقت تو یہ واضح ہوچکی ہیکہ بی جے پی کے بشمول حلیفوں اور دیگر پارٹیوں کے ارکان مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اب ان تمام کو پارلیمنٹ سے نکال دینے کی نریندر مودی کس حد تک ہمت دکھائیں گے یہ آگے پتہ چلے گا۔ پارلیمنٹ کو مجرموں سے پاک بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے تو پھر ایک سال کے اندر ممبئی کے چار لوک سبھا حلقوں میں دوبارہ انتخابات کروائے جاسکتے ہیں۔ ممبئی جنوب سے اوند ساونت، ممبئی جنوب وسط سے راہول ساولے، ممبئی شمال مشرق سے کیرت سومیا اور ممبئی شمال سے گوپال سیٹھی کو سنگین فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔ اگر وہ خاطی پائے جائیں تو انہیں پارلیمنٹ سے نااہل قرار دیا جائے گا۔ جیسا کہ 10 مارچ 2014ء کو سپریم کورٹ نے سیاسی عمل کو مجرموں سے پاک بنانے کیلئے ہدایات جاری کی تھیں کہ جن منتخب نمائندوں کے خلاف سنگین فوجداری مقدمات اور رشوت کے الزامات میں ان کے خلاف ایک سال کے اندر مقدمات کی یکسوئی کرلی جانی چاہئے۔ گھناونے جرائم کے مرتکب ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کو عدلیہ کے فیصلوں کے فوری نااہل قرار دینے کا عمل دیانتدارانہ طور پر ہوجائے تو مودی کی کابینہ اور پارلیمنٹ سے کئی مجرم عناصر کو ہٹادیا جانا پڑے گا۔ کیا نریندر مودی ایسا کرسکیں گے۔ حقیقت اور سچائی یہ ہیکہ ہندوستانی سیاست میں جرائم ہوتے ہیں صفائی نہیں۔ سیاسی مجرموں کو سزاء نہیں ملتی اور ملتی بھی ہے تو مختلف عنوانات سے رہائی بھی ہوتی ہے۔ البتہ حالیہ برسوں میں ہندوستانی سیاست میں ایک تبدیلی یہ آئی ہیکہ بیداری پیدا ہوتی ہے شعور جاگ رہا ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ جو سیاستدانوں کو ماخوذ کیا جاتا ہے انہیں فی الفور عہدہ پارلیمنٹ سے ہٹا دیا جانا چاہئے۔ یہ ہندوستان میں ایک نیا اور پہلا مثبت عمل و تبدیلی ہے۔ سبکدوش ہوتی لوک سبھا میں تقریباً 162 ارکان پارلیمنٹ کے خلاف فوجداری مقدمات زیرالتواء تھے۔ نئی لوک سبھا 2014ء میں ان سے زائد ارکان پارلیمنٹ کے خلاف قتل، اغواء، عصمت ریزی، رشوت ستانی اور دیگر کئی کیس درج ہیں۔ نریندر مودی ان تمام کے خلاف کارروائی کرنے اور اپنے عزم کو پورا کرنے کی دیانتدارانہ کوشش کرسکیں گے یا نہیں یہ سوال ان کا اس وقت تک تعاقب کرتا رہے گا جب تک مجرم ریکارڈ کے حامل ارکان ایوان میں رہیں گے۔ غور طلب امر یہ ہیکہ بی جے پی کے بشمول کئی پارٹیوں نے حالیہ انتخابات میں ایسے کئی امیدواروں کو ٹکٹ دیا جن پر سنگین مقدمات ہیں آخر یہ پارٹیاں ایسے سیاستدانوں کو امیدوار کیوں بناتی ہیں جو مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں تو یہ سوال نئی حکومت بنانے کیلئے ووٹ دینے والے رائے دہندوں اور ازخود مودی کیلئے فکر کی دعوت دیتا ہے۔