راملہ ۔ 26 ۔ اپریل : ( سیاست ڈاٹ کام ) : فلسطینی صدر محمود عباس نے آج کہا کہ حماس کی تائید سے تشکیل پائی جانے والی نئی فلسطینی حکومت ، تشدد کو مسترد کرے گی ۔ اسرائیل کو تسلیم کرے گی اور تمام موجودہ سمجھوتوں کا احترام کیا جائے گا ۔ محمود عباس یہاں تنظیم آزاد فلسطین ( پی ایل او ) کی سنٹرل کونسل سے خطاب کررہے تھے جو اسلام پسند تنظیم حماس سے دوبارہ مصالحت کے سمجھوتہ پر امریکہ کی ثالثی سے جاری امن مذاکرات کو اسرائیل کی طرف سے معطل کئے جانے کے بعد کے لائحہ عمل پر غور کے لیے طلب کیا گیا تھا ۔ فلسطین کے دو حریف گروپوں میں ایک ایسے وقت سمجھوتہ ہوا ہے جب امریکہ اور اسرائیل 29 اپریل تک مقررہ مہلت کے سبب بھی مذاکرات مزید وسعت دینے کی توقع کررہے تھے ۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ امن مذاکرات کو ہمیشہ مسترد کرنے والی اور یہودی مملکت کو تباہ و برباد کرنے والی اسلامی تنظیم حماس کی تائید سے قائم کی جانے والی کسی بھی حکومت سے وہ بات چیت نہیں کرسکتا ۔ تاہم محمود عباس نے پی ایل او کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ تشکیل دی جانے والی متحدہ حکومت میری پالیسی کی تابع رہے گی ، میں نے دہشت گردی اور تشدد کو مسترد کیا ہے ۔ اسرائیل اور تمام بین الاقوامی سمجھوتہ کو تسلیم کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کو بات چیت کی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے بلکہ تنظیم آزادی فلسطین ان مذاکرات میں سارے فلسطین کی نمائندگی کررہی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ اگر فلسطین کے صدر محمود عباس امن چاہتے ہیں تو ان کی تنظیم الفتح کو حماس سے معاہدہ توڑنا ہو گا۔ اسرائیل اس سے پہلے فتح اور حماس کے درمیان معاہدہ کے جواب میں فلسطینیوں سے امن مذاکرات کو ملتوی کر چکا ہے۔
فتح اور حماس کے درمیان چہارشنبہ کو جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق دونوں تنظیم کچھ ہفتوں میں ایک مشترکہ حکومت بنانے اور چھ ماہ بعد الیکشن کرانے پر متفق ہوئی ہیں۔ نتن یاہو نے کہا کہ جب تک میں اسرائیل کا وزیر اعظم ہوں، میں کبھی ایسی فلسطینی حکومت سے بات چیت نہیں کروں گا جسے حماس کے دہشت گردوں کی حمایت ہو جو ہمیں برباد کرنا چاہتے ہیں۔ ادھر فلسطین کی جانب سے مذاکرات کار صائب ارکات نے زور دیا ہے کہ فلسطینی سمجھوتہ اندرونی مسئلہ ہے۔ انہوں نے امریکی خبر رساں ادارہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اس معاملے میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ غزہ میں حماس کی قیادت والی حکومت کے وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ انہیں نتن یاہو کے فیصلے پر تعجب نہیں ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ اسرائیل نے وہی کیا جس کی توقع کی جارہی تھی، یہی ان کی عادت ہے اور یہ طے ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو متحد دیکھنا نہیں چاہتے بلکہ ان کو منقسم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے صدر عباس نے کہا کہ مفاہمت اور امن کے درمیان کوئی خرابی نہیں ہے اور وہ دو متحدہ حل کی بنیاد پر امن کیلئے مصروف عمل ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی محمود عباس سے بات کی اور انہیں اپنی ’ناپسندیدگی‘ کے بارے میں بتایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ امریکہ امن مذاکرات کیلئے مصروف عمل رہے گا۔