نئی صنعتی پالیسی میں فراخدلی ضروری

تلنگانہ حکومت کی نئی صنعتی پالیسی پر مسلم معاشرہ میں تشویش پائی جاتی ہے کہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے نئی صنعتی پالیسی میں مسلم چھوٹے و متوسط صنعتکاروں کے لئے کوئی خاص مراعات فراہم نہیں کئے ہیں۔ صنعتوں کے قیام کیلئے دی جانے والی درخواستوں کی فوری یکسوئی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ قانون سازی کے ذریعہ صنعتوں کے قیام کی درخواستوں کی بروقت منظوری کا حق دینے کو یقینی بنایا جائے گا اور تاخیر کے لئے ذمہ دار عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ پالیسی کے تحت میگا پراجکٹس کیلئے 15 دن کے اندر نوڈل ایجنسی سے تمام کلیرنس کے لئے ایک مشترکہ درخواست داخل کرنا ہی کافی قرار دیا گیا ہے ۔ پالیسی کے مطابق صنعتوں کے قیام کے خواہاں افراد کی حوصلہ افزائی کرنے پر توجہ دی جارہی ہے لیکن دھوکہ دہی کی صورت میں حکومت کیا اقدام کرے گی یہ واضح ہونا چاہئے ۔ پڑوسی ریاست آندھراپردیش کے برخلاف چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے یہ نئی پالیسی وضع کی کہ تلنگانہ کے 10 اضلاع میں صنعتوں کے قیام کیلئے اراضی مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا ۔یہ قابل ستائش بات ہے کہ کم از کم 200 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری سے کم سے کم 1000 افراد کو روزگار ملے گا لیکن اس میں مسلمانوں کو کس حد تک فائدہ ہوگا اس کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد مسلمانوں نے ترقی کے تعلق سے کئی توقعات وابستہ کی ہیں۔ انھیں حکومت کے ہر شعبہ میں سماجی و معاشی طورپر فوائد فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ تلنگانہ میں 2001 ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 12.5فیصد ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ نئی ریاست میں انھیں ان کے سماجی ، سیاسی اور معاشی موقف کو مضبوط بنانے حکومت کس حد تک عملی اقدامات کرے گی ۔

حکومت کی اب تک کی پالیسی اور اعلانات سے خوش فہمی پیدا ہوگئی لیکن مسلمانوں کو عملی مظاہرہ کا انتظار ہے ۔ سرکاری سطح پر یہ اعتراف کیاجاتا رہا ہے کہ مسلمانوں میں بعض افراد دلتوں سے بھی زیادہ پسماندگی کا شکار ہیں ، اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود سرکاری پالیسیوں کو فوری روبہ عمل لانے میں تاخیر کی جاتی ہے یا وقت گذرنے کے ساتھ یہ پالیسی برفدان کی نذر ہوتی ہے ۔ ماضی میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ مسلمانوں کی ابتر حالت حکمرانوں کی ناانصافیوں یا نااہلی کے باعث ہورہی ہے ۔حکومت ناکام ہوچکی ہے وہ جو تمام خرابیاں سابق حکومتوں میں تھیں اس کو ہر آنے والی حکومتوں نے بھی مزید خراب کردیا ہے ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ سے وابستہ توقعات کے مطابق یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ سابق حکومتوں کی خرابیوں کو مزید مہمیز ہونے نہیں دیں گے بلکہ ریاست میں نئی صنعتی پالیسی کی طرح مسلمانوں کے حق میں بھی ٹھوس قدم اٹھائیں گے ۔ مسلمانوں نے جن ابتر حالات کو ختم کرنے کیلئے ٹی آر ایس کو ووٹ دیا ہے تو اب انھیں انصاف کے حصول اور حقوق سے استفادہ کرنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہئے حسب عادت بی جے پی نے تلنگانہ حکومت کی بعض پالیسیوں پر اعتراض کیا ہے ۔ اس پارٹی کو مسلمانوں کیلئے ہونے والی صرف زبانی اعلانات پر ہی غصہ آجاتا ہے تو حکومت اصل پالیسی کو روبہ عمل لانے سے ڈرتی ہے لیکن ٹی آر ایس حکومت سے امید ہے کہ وہ ایسے ڈر یا خوف کے تحت پالیسی فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں جرات کا مظاہرہ کرے گی ۔

جب کبھی سرکاری سطح پر مسلمانوں کی بہبود کی بات ہوتی ہے تو سیاسی سطح پر اس کو روکنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا الزام کل تک آندھرائی حکمرانوں پر عائد ہوتا رہا ہے اب اس طرح کے الزام کا اعادہ تلنگانہ حکومت میں نہ ہونے پائے تو چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ریاست کے 70 فیصد مسلمان زیادہ تر چھوٹے ٹاؤنس اور شہروں میں مقیم ہیں ان میں میکانیکس بھی ہیں ، چھوٹے صنعتکار بھی ہیں ، بس ڈرائیورس بھی ، پلمبرس ، ٹیلرس، لب سڑک چائے کی اسٹالس چلانے ولے بھی ہیں ۔ ان میں بعض مسلمان اسمال اسکیل انڈسٹریز بھی چلاتے ہیں ۔ دیگر کو سرکاری ملازمتوں میں دیکھا جاتا ہے ۔ اس میں زیادہ تر اسکول ٹیچرس ہیں یا پولیس کانسٹیبل ہیں۔ مسلمانوں کو کم درجہ کی ملازمتیں دے کر یا ٹھیلہ بنڈیاں تقسیم کراکر اپنی اسکیمات کو روبہ عمل لانے کا مطلب حکمرانی کے فرائض کی تکمیل نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ٹھوس پالیسیوں کو وضع کرنے کے ساتھ سرکاری سرپرستی اور رہنمائی کی ضرورت ہوگی۔