شائد میں در خور نگہ گرم بھی نہیں
بجلی تڑپ رہی ہے مرے آشیاں سے دور
نئی ریاست تلنگانہ اور مرکز
نئی ریاست تلنگانہ کے ساتھ مرکزی حکومت کا سوتیلا سلوک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ٹی آر ایس کے ساتھ بی جے پی کا عدم اتحاد تلنگانہ کے حق میں ناراضگیوں کو جنم دے رہا ہے۔ مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کیلئے کوئی بھی اسکیم اور فنڈس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ بھی ایسا معلوم ہوتا ہیکہ اپنی جیت کی خوشی میں اتنے منہمک ہوچکے ہیں کہ انہیںمرکز سے ریاست تلنگانہ کے حق کے حصول میں ہچکچاہٹ ہورہی ہے۔ وہ خیال کررہے ہوں گے کہ ان کے کہنے سے کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ مودی حکومت سے اتنے خائف رہنے والے چندرشیکھر راؤ کو اپنی حکومت پر مجبوری پن کی بھپتی طاری نہیں کرنی چاہئے۔ مرکزی حکومت اتنی زور آور نہیں ہوسکتی کہ وہ کسی بھی ریاست کے حق کو کاٹ کے پھینک سکے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مرکز کی بی جے پی حکومت اس وقت خود کو سیاسی اسٹاک مارکٹ تصور کررہی ہے جہاں کبھی شیرمارکٹ کی طرح ریاستوں کے حقوق میں اتار چڑھاؤ لانا چاہتی ہے۔ بی جے پی حکومت کو ہی سب کچھ سمجھنے والی عوام کی مٹھی بھر تعداد مرکزی بجٹ سے خوش اور ہشاش بشاش و مطمئن معلوم ہوتی ہے۔ مودی حکومت نے اتحادی حلیف پارٹیوں کی حکمرانی والی ریاستوں کو آئندہ پانچ سال اپنے پلو کے ساتھ باندھ رکھتے ہوئے مراعات کا بھی محاذ کھول دیا ہے۔ تلنگانہ کے حق میں کچھ نہیں کا مطلب ٹی آر ایس اور بی جے پی میں عدم اتحاد ہے۔ اس لئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی سیاسی حکمت عملی سے واقف کاروں نے اندازہ کیا ہیکہ آنے والے دنوں میں وہ بھی بی جے پی سے رسم و راہ بڑھاتے ہوئے مودی حکومت سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اب تک مرکز کی عدم دلچسپی کے باعث ہی تلنگانہ حکومت اپنے آپ کو دانت پیستی، جھلاتی اور دیواروں سے شکوہ کرتے رہی ہے۔ اپنی سرگوشیوں میں جاسوسی صفت رکھنے والی مقامی پارٹی نے بھی بی جے پی سے درپردہ سازباز کرلی ہے تو وہ بدخصلت سیاسی حرکتیں کرتے ہوئے پراسرار حرکتیں کرنے لگے گی۔ اسی لئے چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو فوری حرکت میں آتے ہوئے مرکز سے رجوع ہوکر نئی ریاست تلنگانہ کے تقاضوں اور مرکزی حکومت کی ذمہ داریوں کے تعلق سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مرکزی بجٹ میں ریاست تلنگانہ کو شدید مایوس کردیا ہے ملک کی اس نوخیز ریاست کیلئے مرکز کی جانب سے بے شمار مراعات اور ہمدردیاں ہونی چاہئے تھی اگرچیکہ چیف منسٹر نے مرکزی بجٹ پر برسرعام کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن انہیں فوری ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے مرکز کے اس رویہ کے خلاف نمائندگی کرنی چاہئے۔ بہرحال تلنگانہ کیلئے مرکزی بجٹ میں گذشتہ سال کے مقابل اس سال 1,605 کروڑ روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آئندہ سال ریاست کو ملنے والی مالی امداد 13,955 کروڑ روپئے مختلف ریونیو شعبوں سے ہوگی۔ مرکز نے آندھراپردیش کو 24 ہزار 637 کروڑ 36 لاکھ روپئے مختص ہیں۔ اس رقم سے آندھراپردیش کی حکومت مفت ترقیاتی پراجکٹس انجام دے سکے گی۔ ریاست تلنگانہ کا بھی سالانہ بجٹ اس ماہ کے دوسرے ہفتہ میں پیش کیا جانے والا ہے۔ مرکزی بجٹ میں ریاست کیلئے کسی قسم کی رعایت نہ ملنے کے بعد تلنگانہ کے ریاستی بجٹ میں عوام سے ٹھوس وعدے کرنے اور اسکیمات کا اعلان کرنے میں احتیاط سے کام لینے کی نوبت آ چکی ہے۔ ریاستی وزیرفینانس اور چیف منسٹر نے دہلی کا دورہ کرکے وزیراعظم نریندر مودی سے نمائندگی کی تھی مگر اس نمائندگی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے خصوصی طور پر وزیراعظم سے ملاقات کرکے ریاست کیلئے خصوصی پیاکیج کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹی آر ایس نے انتخابی وعدوں کے ذریعہ عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ ان کے حق میں زیادہ سے زیادہ فلاحی اقدامات کرے گی۔ وہ اب مرکز کی سرپرستی و ہمدردی کے بغیر صرف ریاستی ریونیو کے سہارے فلاحی کاموں کو کس طرح انجام دے سکے گی یہ غیریقینی ہے۔ مرکزی وزیرفینانس ارون جیٹلی نے تلنگانہ ر یاست کے کئی اہم مطالبات کو بھی نظرانداز کردیا۔ بجٹ میں ریاست تلنگانہ کیلئے صرف 20 کروڑ روپئے آئی آئی ٹی حیدرآباد کیلئے اور نئی قبائیلی یونیورسٹی کے قیام کیلئے ایک کروڑ روپئے و ٹی این سی او آئی ایس کیلئے 15 کروڑ ڈی این اے فنگر پرنٹ کے سنٹر کیلئے 62 کروڑ روپئے اور اڈوانس ریسرچ سنٹر کیلئے 60 کروڑ روپئے کا ذکر کیا گیا ہے۔ حق تو یہ ہیکہ نئی ریاست تلنگانہ کا حق ادا نہ ہوا۔ مودی حکومت کے وہ تمام سرکردہ لوگ نئی ریاست تلنگانہ کے ساتھ مذاق کا رویہ رکھتے ہوں تو پھر چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کو کچھ سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئے۔ اس ریاست کو اس کا حق ملنا ہی چاہئے۔