میں ہوں نا تمہارا دوست

احمد نویں کلاس میں پڑھتا تھا ۔ اس نے اپنی کلاس کے ایک لڑکے سے دوستی کرلی جس کا نام راکیش تھا ۔ راکیش کلاس میں چپ چاپ رہتا تھا ۔ ایک دن احمد نے راکیش کا ہاتھ پکڑ کر کہا راکیش ! تم ہر وقت اُداس کیوں رہتے ہو ؟
مجھ سے تمھاری اُداسی دیکھی نہیں جاتی ‘‘ ۔ احمد کے منہ سے پیار بھری باتیں سن کر راکیش کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ وہ کہنے لگا میں غریب ہوں اس لئے لوگ مجھ سے باتیں نہیں کرتے ‘‘۔ احمد نے کہا میں ہوں نا تمہارا دوست ۔ تم روز میرے گھر آیا کرو میری امی تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی ۔ راکیش ، احمد کے گھر جانے لگا ۔ ایک دن راکیش کے اسکول نہ آنے پر احمد کلاس میں بہت پریشان رہا ۔ چھٹی ہوتے ہی وہ راکیش کے گھر کی طرف چل پڑا ۔ اس کے گھر میں تالا لگا دیکھ کر احمد گھبرا گیا ۔ آس پاس سے پوچھنے پر پتہ چلاکہ آج راکیش کا ایکسیڈنٹ ہوگیا وہ ہاسپٹل میں ہے۔ احمد دوڑتا ہوا ہاسپٹل گیا راکیش کی حالت دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ راکیش کی ماں بھی رو رہی تھی ۔ اسی وقت ڈاکٹر نے راکیش کی ماں سے کہا کہ مریض کا خون بہت نکل گیا ہے اسے دو بوتل خون کی ضرورت ہے ۔ احمد بیچ میں بول پڑا۔ ڈاکٹر صاحب اگر راکیش کا خون میرے خون سے ملتا ہے تو پلیز اسے دے دیں ۔ جانچ کرنے کے بعد پتہ چلاکہ دونوں کا گروپ ایک ہی ہے ۔ ڈاکٹر نے احمد کا خون راکیش کو چڑھادیا ۔ راکیش دھیرے دھیرے آنکھیں کھولنے لگا ۔ اپنے سامنے احمد کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ جب احمد کے ابو کو پتہ چلا کہ خون احمد نے دیا ہے تو وہ بھی بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نے احمد کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ آج تم نے دوستی کا سب سے بڑا فرض ادا کیا ہے ۔