کہاں سے لائیں گے چن کر نشاط کی کلیاں
ہمیں تو فکر ہے گلشن نیا بسانے کی
میک اِن انڈیا
ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لئے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت کی جانب سے بعض تجارتی اصلاحات لانے کے اقدامات کئے ہیں۔ اپنے دورہ امریکہ کے موقع پر اُنھوں نے بیرونی کمپنیوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے پُرکشش اقدامات کا اشارہ دیا اور ’’میک اِن انڈیا‘‘ عنوان سے پالیسی و منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ بیرونی ملکوں کے تجارتی و صنعتی گھرانوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرانے سے قبل اندرون ملک معاشی، صنعتی و تجارتی سطح کے حالات مستحکم و مضبوط بنانا ضروری ہے مگر نریندر مودی نے ابھی تک ایسی ٹھوس کارروائیاں نہیں کی جس سے توقع کی جاسکے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ہندوستان کا رُخ کرنے میں کامیابی ملے گی۔ امریکی تاجر برادری نے وزیراعظم نریندر مودی کے اصلاحات کے عمل کے اعتبار کا سوال اُٹھاکر اس پر تنقید کی ہے۔ جب بزنس میں اعتبار یا بھروسہ پیدا نہیں ہوگا تو سرمایہ کاری کی توقع فضول ثابت ہوگی۔ مودی امریکہ میں تاجر برادری کو کس حد تک مطمئن کرسکیں گے ان کے دورہ سے واپسی کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ وہ ہندوستانی مارکٹ کو بیرونی صنعتکاروں اور تاجرین کے لئے کشادہ کرنا چاہتے ہیں لیکن امریکی چیمبر آف کامرس اور دیگر 15 بزنس اسوسی ایشن اداروں نے جو زراعت سے لے کر فلم سازی، فارماسیوٹیکل اور ٹیلی کام جیسے شعبوں کی نمائندگی کرتے ہیں صدر امریکہ بارک اوباما پر زور دے چکے ہیں کہ وہ نریندر مودی پر دباؤ ڈال کر ہندوستان میں تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ میک اِن انڈیا کا نعرہ مودی کے لئے کس حد تک کامیابی دلائے گا اس کا انحصار بیرونی سرمایہ کاروں کی مرضی پر ہے جبکہ بیرونی تجارت و صنعت کے شعبہ سے وابستہ افراد نے مودی کی پالیسیوں میں کئی خامیاں نکالی ہیں اور کہا ہے کہ مودی حکومت نے ازخود مشکل ترین پالیسیاں وضع کرلی ہیں جس سے عالمی مارکٹ میں ہندوستان کے رول سے متعلق متضاد اشارے مل رہے ہیں۔ گزشتہ سال بالی میں ہوئے عالمی تجارتی تنظیم معاہدہ میں ہندوستان کا موقف مختلف تھا جس سے منفی اثرات مرتب ہونا یقینی ہے۔ تاجرین نے ہندوستان کی اضافی شرحوں اور زائد شرائط کے تعلق سے بھی شکایت کی ہے تو حکومت ہند کو اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ہندوستان نے اب تک کئی سطحوں پر معاشی اصلاحات کے ذریعہ اپنے قدم مضبوط کرلئے ہیں انٹلکچول پراپری رائٹس کے لئے بھی فضاء سازگار بنائی جارہی ہے لیکن اس میں کمزور یا سست پیشرفت سے عالمی تجارتی گھرانوں کو تشویش ہے لیکن مودی کے دورہ امریکہ کو ایک مثبت سوچ اور حوصلے کے ساتھ دیکھنا ضروری ہے۔ 2005 ء میں امریکی ویزا دینے سے انکار کے بعد مودی کا آج شاندار خیرمقدم کیا جارہا ہے تو یہ بدلتی پالیسیوں اور رونما ہونے والے نئے حالات کا مظہر ہے۔ وزیراعظم مودی کو اندرون ملک بزنس گھرانوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے خاص کر ٹاٹا سنس چیرمین سائرس مستری، ادتیہ برلا گروپ چیرمین کمار منگلم برلا، آئی سی آئی سی آئی منیجنگ ڈائرکٹر و سربراہ سی ای او چندر کودھیر، ماروتی سوزکی منیجنگ ڈائرکٹر و سی ای او کینچی ایوکیو اور ویپرو چیرمین عظیم پریم جی نے نریندر مودی پر اپنے بھرپور اعتماد و ایقان کا اظہار کیا ہے اور ان کی قیادت میں جاری حکمرانی کو اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ یہ بات تو واضح ہوچکی ہے کہ مودی حکومت کارپوریٹ گھرانوں کی حکومت ہے اس لئے وہ بزنس گھرانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کرے گی۔ اس کے منفی نتائج عام اور غریب آدمی کے لئے مسائل پیدا کریں گے۔ میڈ انڈیا کو میک اِن انڈیا بنانے کی پالیسی اور جذبہ ہندوستانی معیشت کو مضبوط بنانے میں کارگر ثابت ہو تو یہ خوش آئند بات ہوگی ورنہ ہندوستان کا حال اور مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ ویسے 14 گھنٹے روزانہ کام کرنے والے وزیراعظم مودی نے ہندوستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے مثبت فضاء پیدا کردی ہے تو ہندوستانی معیشت ہی چمک اُٹھنے کی توقع کی جاسکتی ہے کیونکہ ملک کے سب سے متمول ترین شخص صنعت کار مکیش امبانی نے آئندہ 12 تا 15 ماہ میں 1.8 لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ اس سے مزید 1,25,000 ملازمتیں حاصل ہوں گی۔ میک اِن انڈیا منصوبہ کی پرزور حمایت کرتے ہوئے جہاں ہندوستانی تاجر برادری و صنعتکاروں نے وزیراعظم کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں وہیں عالمی سرمایہ کاروں نے جو شبہات ظاہر کرکے شکایتی موقف اختیار کیا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی سرمایہ کاری کا منصوبہ صد فیصد کامیاب ہوسکے۔ حقیقی کامیابی عالمی مارکٹ کے معیار کے مطابق سرویس فراہم کرنے سے ہی ملے گا۔
شادی مبارک اسکیم
غریب مسلم خاندان سے تعلق رکھنے والی دلہن کو شادی کے وقت 51 ہزار روپئے کی امداد دینے تلنگانہ حکومت کا فیصلہ بعض فرقہ پرست طاقتوں کو کھٹکے گا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کی سمت قدم بڑھایا ہے تو ان قدموں کو پیچھے ہٹانے کا سوال نہیں پیدا ہونا چاہئے۔ چیف منسٹر کے سی آر کا تابناک جدوجہد بھرا ماضی بے مثال اقدامات اور شاندار سیاسی و جمہوری جدوجہد کا ثمر ہے تو اس کے فوائد ریاست کے ہر طبقہ اور ہر شہری کو حاصل ہونا ضروری ہے۔ غریب مسلم خاندانوں میں لڑکیوں کی شادیاں ایک سنگن مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ ایسے میں تلنگانہ حکومت نے رقمی امداد کی شروعات کی ہے تو اس سے کئی غریب مسلم لڑکیوں کی شادیوں کی راہ ہموار ہوگی۔ بشرطیکہ حکومت اور امداد تقسیم کرنے والے متعلقہ عہدیداروں میں دیانتدارانہ جذبہ موجود ہو۔ بسا اوقات کسی بھی اسکیم پر عمل آوری صرف ایک مرحلہ تک ہوتی ہے۔ جیسا کہ فیس باز ادائیگی کا مسئلہ فی الحال طلباء کے لئے پریشان کن ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے امداد دینے کا منصوبہ بھی آگے چل کر دم توڑ دے تو کے چندرشیکھر راؤ پر اُنگلیاں اُٹھیں گی۔ کچھ دنوں بعد انھیں یہ محسوس ہونے لگے کہ اتنا آسان بھی نہیں تجھ پر حکومت کرنا اے تلنگانہ۔ بلاشبہ کے چندرشیکھر راؤ نے تلنگانہ کے لئے بہت جدوجہد کی ہے۔ عوام کی بھلائی کے لئے کئی سال کوشاں رہے۔ اب انھیں حقیقی طور پر اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لانے کا وقت آگیا ہے تو عوام کی حاجت مندی کو پورا کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ شادی مبارک اسکیم پر مؤثر عمل آوری کے بہتر نتائج برآمد ہوں تو چیف منسٹر کی حیثیت سے کے سی آر کو غریب مسلم خاندانوں کی لڑکیوں کو امداد کے علاوہ ان کے دیگر انتخابی وعدوں پر بھی مؤثر طریقہ سے عمل آوری کو یقینی بنایا جائے تو بلاشبہ سنہرے تلنگانہ کا خواب پورا کرنے میں وہ ضرور کامیاب ہوں گے۔