ایک تھی مینڈکی اور ایک تھا کھیکڑا ‘ دونوں میں تھی بڑی دوستی۔ ایک دن دونوں بیٹھے تالاب کے کنارے باتیں کررہے تھے کہ اتنے میں اونٹ اُدھر آنکلا اورپانی پینے کیلئے تالاب کی طرف چھبٹا۔ مینڈکی نے جو اُونٹ کو ادھر آتے دیکھا تو بُڑک سے پانی میں کود پڑی ۔ اتفاق کی بات تھی کہ اُونٹ نے جب تالاب میں پاؤں ڈالا تو اس کا پاؤں مینڈکی پر پڑگیا لیکن وہ اس کے نیچے سے پھسل کر نکل گئی اور پھرکتی ہوئی کنارے پر پہنچی جہاں کھیکڑا بے چینی سے اس کا انتظار کررہا تھا اور اونٹ کے پیروں تلے اپنے کچلے جانے کا واقعہ کھیکڑا کو یوں سنانے لگی ۔ ’’
لمبا تھا لم ٹھنگا تھا شہزادی کو کچلا تھا ‘ ابھی وہ اپنی دُکھ بھری کہانی پوری بھی نہ کرنے پائی تھی کہ اونٹ ماموں جو پاس ہی کھڑے پانی پی رہے تھے اپنی شان میں ’’ لمبا تھا لم ٹھنگا تھا‘‘ کے الفاظ سن کر آپے سے باہر ہوگئے اور جھلا کر بول اُٹھے ۔’’ پانی میں کی ٹرو تجھے کون دیکھا تھا ‘‘۔ مینڈکی سے اب تو نہ رہا گیا ۔ ایک تو اونٹ نے اسے کچل دیا تھا اور پھر چوری پر سرزوری یہ کہ ’’ پانی میں کی ٹرو‘‘ کہہ دیا ۔ وہ منہ بسورتے ہوئے کھیکڑے سے کہنے لگی ’’ یہمنہ اور مسور کی دال ‘‘ ۔ کھیکڑے کو اپنے دوست کی دل شکنی کب منظور تھی ۔ اس کو تو مینڈکی سے دلی ہمددی تھی اور اس کے کچلے جانے کا رنج بھی تھا ۔ اس نے مینڈکی کو سمجھاتے ہوئے ہمدردانہ لہجے میں کہا ’’ جانے بھی دو ‘‘ اور وہ بھی کھیکڑے کی زبانی سُن کر مینڈکی پھولی نہ سمائی اور مارے خوشی کے ٹرٹر ٹرٹر کا ایک سلسلہ لگادیا جس میں تالاب کی ساری مینڈکیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا ۔ اونٹ بے چارا اس ٹرٹر میں کیا کہہ سکتا تھا ۔ دل ہی دل میں یہ کہتا ہو وہاں سے چلاگیا کہ اس صورت اور اس آواز پر اتنا ناز ہے ۔ خوبصورت ہوتی تو نہ جانے کیا کرتی ۔ خدا کی شان ! مینڈکی اور رانی کہلائے؟ ۔