استعفیٰ دینے کی تردید ، کسی قسم کی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی
حیدرآباد ۔ 4 ۔ اگست : ( سیاست نیوز ) : ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ محمد محمود علی نے یونائٹیڈ مسلم فورم کے اجلاس میں سیاسی نوعیت کی بات چیت ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں چیف منسٹر کے سی آر کی سیکولرازم پر کامل بھروسہ ہے ۔ لہذا استعفیٰ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ٹی آر ایس ان کے سیاسی کیرئیر کی پہلی اور آخری جماعت ہے جس سے بے وفائی کرنے کا وہ گمان بھی نہیں کرسکتے ۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے بتایا کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک ، مکاتب اور علمائے مشائخین پر مشتمل یونائٹیڈ مسلم فورم کے اجلاس میں مجھے ناشتے پر مدعو کیا گیا تھا ۔ معزز اور قابل احترام شخصیتوں سے ملاقات کرنے کے لیے وہ پہونچ گئے تھے جو ایک خیر سگالی ملاقات تھی جس میں کویت کے دو مدعوئین بھی شامل تھے ۔ اس ملاقات میں سیاسی نویت کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے ۔ صرف انٹرنیشنل ایرپورٹ میں مسجد نہ ہونے سے نماز پڑھنے کے لیے مصلیاں کو پیش آنے والی دشواریوں سے انہیں واقف کرایا گیا تھا جس پر انہوں نے اس سلسلہ میں جی ایم آر انتظامیہ سے بات چیت کرتے ہوئے مصلیوں کو نماز پڑھنے کے انتظامات کرانے کا تیقن دیا تھا ساتھ ہی مختلف مسائل پر نمائندگی کرنے کے لیے علماء مشائخین نے چیف منسٹر کے سی آر سے ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر وہ ( محمد محمود علی ) نے چیف منسٹر سے بات چیت کرتے ہوئے ملاقات کے لیے وقت کا تعین کرانے کا تیقن دیا لیکن آج ایک اخبار ( سیاست نہیں ) میں ملاقات میں سیاسی نوعیت کی بات چیت ہونے کا تذکرہ کیا گیا جو سراسر جھوٹ و بے بنیاد ہے ۔ جس میں ٹی آر ایس کی بی جے پی سے اتحاد ہونے پر ٹی آر ایس کا تلگو دیشم جیسا حشر ہونے چندرا بابو نائیڈو کی طرح کے سی آر بھی اقتدار سے محروم ہوجانے کی بات کہی گئی ہے اور ساتھ ہی ٹی آر ایس کی بی جے پی سے اتحاد ہونے پر ان کی جانب سے استعفیٰ دینے کا پیشکش کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے جو سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہے ۔ ملاقات میں جب سیاسی نوعیت کی بات ہی نہیں ہوئی ہے تو بھلا میں استعفیٰ دینے کا پیشکش کیوں کروں ؟ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے کہا کہ کے سی آر ایک سیکولر قائد ہیں ان کی سیکولر ذہنیت سے متاثر ہو کر وہ ٹی آر ایس میں شامل ہوئے ہیں اور وہ کپڑوں کی طرح سیاسی جماعتیں تبدیل کرنے کے عادی نہیں ۔ اپنی آخری سانس تک میں ٹی آر ایس سے وابستہ رہوں گا اور ایک سپاہی کی طرح کام کروں گا ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست میں گذشتہ تین سال کے لیے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے جو عملی اقدامات ہوئے ہیں اس کی متحدہ آندھرا پردیش میں مثال نہیں ملتی ۔ کے سی آر بحیثیت چیف منسٹر نئی ریاست کو صحیح سمت لیجارہے ہیں ۔ ریاست کا امن و امان اور عوامی خوشحالی ملک کے دوسرے ریاستوں کے لیے عملی نمونہ ہے ۔ صدر مجلس و رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے خود ٹیوٹر پر ٹیوٹ کرتے ہوئے بھروسہ جتایا ہے کہ جب تک تلنگانہ میں کے سی آر ہے بی جے پی کو ابھرنے کا کوئی موقع نہیں ہے ۔ ٹی آر ایس ایک سیکولر جماعت ہے ۔ مستقبل میں کبھی ٹی آر ایس ، بی جے پی سے اتحاد نہیں کریں گی اور نہ ہی ٹی آر ایس این ڈی اے کی کوئی حلیف جماعت بنے گی ۔ اصولوں کی بنیاد پر ریاست کے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے صدارتی چناؤ اور نائب صدر جمہوریہ کے انتخابات نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے مسئلہ پر مرکز کی تائید کی گئی ہے ۔ متحدہ آندھرا پردیش میں اقلیتی بجٹ 1000 کروڑ روپئے تھا ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست میں اقلیتی بجٹ 1200 کروڑ سے تجاوز کرچکا ہے ۔ اقلیتی طلبہ کو کارپوریٹ طرز کی تعلیم فراہم کرنے کے لیے 203 سرکاری اقلیتی اقامتی اسکولس قائم کرتے ہوئے ایک لاکھ 32 ہزار طلبہ کو مفت تعلیم ، قیام و طعام کی مکمل سہولت فراہم کی جارہی ہے ۔ شادی مبارک جیسی منفرد اسکیم سے ہزاروں غریب مسلم لڑکیوں کی شادیاں کی جارہی ہیں ۔ مقدس ماہ رمضان میں لاکھوں غریب مسلمانوں میں ملبوسات تقسیم کئے جارہے ہیں اور یہ سب کچھ کے سی آر سے ممکن ہے ۔ ٹی آر ایس جیسی سیکولر جماعت سے وہ علحدہ ہونے کے بارے میں کبھی سونچ بھی نہیں سکتے ۔۔