حکمراں ناکام اور قانون گر غفلت میں ہو
اتحاد اور امن سے کر ظالموں کا سامنا
میرٹھ میں فساد
عام انتخابات کے دوران ہی ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرکے سیاسی فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے مستقبل کے عزائم کا اِشارہ دینا شروع کردیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلہ کی پولنگ سے قبل میرٹھ میں فرقہ وارانہ فساد اور آسام کے حالیہ بوڈو دہشت گرد حملے میں 35 سے زائد مسلمانوں کی ہلاکت سے واضح ہوجاتا ہے کہ فرقہ پرستوں نے مرحلہ وار طور پر ظلم و زیادتیوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ یوپی کے ضلع میرٹھ میں معمولی مسئلہ کو ہوا دے کر فساد برپا کیا گیا۔ 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ان میں سے 3 افراد گولیوں کے زخموں کے ساتھ دواخانہ میں زیر علاج ہیں۔ تین گرام علاقہ میں واقع ایک مسجد کے باہر دیوار پر خاردار تار لگانے یا پانی کے مسئلہ پر جھگڑے نے تشدد کا رُخ اختیار کیا تو ضلع نظم و نسق پولیس نے اسے قابو پانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ تشدد قریبی علاقوں میں بھی پھیل گیا۔ دونوں جانب کے گروپس کو ایک دوسرے سے متصادم ہونے کی چھوٹ دے دی گئی۔ کوتوالی پولیس سرکل کے علاقہ میں مسجد کی دیوار کی تعمیر پر اعتراض کرتے ہوئے فرقہ پرستوں نے تعمیری کام رُکوا دینے کی کوشش کی۔ بی جے پی کے میونسپل کونسلر نے تعمیری کام پر احتجاج کرکے مسئلہ کو بھڑکایا تو حالات بے قابو ہوگئے۔ فرقہ پرستوں کی ٹولیاں اس لئے حوصلہ مند ہورہی ہیں، کیوں کہ ملک میں ماحول ہی فرقہ وارانہ طرز کے حامل سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عام انتخابات کی مہم کو ایک خاص طبقہ کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش کے لئے استعمال کیا جائے تو یہ حکمراں طبقہ اور لااینڈ آرڈر پر قابو پانے والے اداروں کا کام ہے کہ فوری کارروائی کرے، لیکن پولیس فورس اور سرکاری انتظامیہ سے وابستہ افراد کو بھی ایک طبقہ کے لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کی فکر نہیں ہوتی۔ عوام الناس میں بھی شعور کو گہن لگادیا گیا ہے۔ فرقہ پرستی کی ذہن سازی کے عوام کو معمولی معمولی باتوں پر متصادم ہونے کی ترغیب دی ہے۔ میرٹھ کے جس علاقہ میں فساد ہوا ہے، وہاں مسجد کی دیوار کی تعمیر کا مسئلہ ہے یا پانی کی تقسیم کے مسئلہ پر جھگڑے کو بھڑکایا گیا ہے، اس پر حکام کو توجہ دینی چاہئے۔ پانی کے مسئلہ پر لوگ جھگڑتے ہیں تو یہ افسوسناک بات ہے۔ کسی بھی علاقہ میں رہنے والے عوام کو اپنے مذہب اور سیاسی خطوط سے بالاتر ہوکر ایک دوسرے سے انسانی جذبہ کے ساتھ مل جل کر رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ گرما کے موسم میں پینے کے پانی کا مسئلہ ہندوستان کے بیشتر شہروں میں پیدا ہوتا ہے۔ میرٹھ میں بھی پانی کی تقسیم کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ شہریوں کو صاف ستھرا پینے کا پانی فراہم کرنا میرٹھ میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری ہے۔ میرٹھ سٹی کے لئے جہاں سے کانگریس کے سابق ایم پی محمد اظہرالدین نمائندگی کرتے تھے، 2008ء میں سربراہی آب پراجکٹ کے لئے 27 کروڑ روپئے منظور کئے گئے تھے۔ چھ سال بعد بھی اس کا صرف 78 فیصد کام ہوا ہے۔ اگرچہ کہ منظورہ بجٹ کا 98 فیصد حصہ صرف کیا گیا، لیکن شہریوں کو پانی سربراہ کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ یوپی کی سماج وادی پارٹی حکومت نے اپنی ناقص حکمرانی سے شہریوں کے لئے کئی مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ میرٹھ ہمیشہ سے ہی فرقہ وارانہ طور پر ایک حساس شہر رہا ہے۔ یہاں نظم و نسق کو مؤثر بنانے اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں معمولی بہانے تلاش کرکے فساد برپا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو کچلنے کے لئے ان کے خلاف سخت کارروائی ہی واحد حل ہے، مگر اب تک کے فسادات میں ملوث فرقہ پرستوں کے خلاف کسی قسم کی سخت کارروائی نہ کرنے سے فسادات بھڑکانے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہے۔ فرقہ پرست سیاستداں کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ اس کے باوجود اس ملک کا قانون انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے سے قاصر ہے۔ میرٹھ شہر کا یوپی کے سب سے پسماندہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ فرقہ پرستوں نے اس شہر کو پسماندہ بناکر رکھا ہے تاکہ وہ ناخواندہ لوگوں کی مدد سے صرف ذات پات کی سیاست کرتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد پورے کریں۔ عام انتخابات کے بعد ملک پر اگر فرقہ پرستوں کا اقتدار ہو تو مسلم طبقہ کے افراد میں تشویش پیدا ہوگی، مگر مسلمانوں کو فرقہ پرستوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لئے متحد ہونا چاہئے۔ کسی بھی فرقہ وارانہ فساد کے دوران اپنے حوصلے کھونے کی بجائے حالات کا پُرامن طریقہ سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کو ڈرانے اور انھیں خوفزدہ کرنے کے لئے جو طاقتیں آج اندھادھند طریقے سے نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں، اس کی وجہ سے حالات تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ آسام کے بعد میرٹھ اور اس کے بعد کوئی اور شہر نشانہ بنتا ہے تو حکمران طبقہ کی ناکامیوں اور لااینڈ آرڈر پر کام کرنے والی پولیس فورس کی مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں جو حالات رونما ہوں گے، وہ بھیانک ہوں گے۔ اس لئے قانون کے رکھوالوں اور قانون کو نافذ کرنے والوں کو سختی سے کام لینا ہوگا۔