عثمان چھٹی جماعت کا طالب علم تھا ۔ وہ پڑھائی میں بہت ذہین تھا ، ہمیشہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتا تھا ۔ اس کا ایک ہم جماعت کامران اس سے بہت جلتا اور عثمان کو نیچا دکھانے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا ۔ ویسے تو کامران بھی ذہین تھا مگر عثمان کی کامیابی اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی لیکن پھر ایک واقعے نے کامران کو بالکل بدل دیا ۔ یہ پانچویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے وقت کا واقعہ تھا ۔ اگلے روز انگریزی کا پرچہ تھا ، کامران اس بار بھی اپنے طور پر ہرممکن کوشش کررہا تھا کہ وہ عثمان سے آگے نکل جائے لیکن پرچہ سے ایک دن پہلے اس کی انگریزی کی کتاب گم ہوگئی ۔
صبح سے دوپہر ہونے کو آئی مگر اس کی کتاب نہ ملی چنانچہ وہ پریشانی کے عالم میں گھر سے نکلا مگر اس کی اپنے کسی دوست سے بنتی ہی نہیں تھی ۔ سب نے اسے کتاب دینے سے انکار کردیا کیونکہ وہ خود بھی تیاری کررہے تھے ۔ کامران پریشانی میں گھر واپس جانے کیلئے پلٹا اور اپنی جیب ٹٹولنے لگا مگر اس کی جیب خالی تھی ۔ نئی کتاب خریدنے کیلئے اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے ۔ اچانک اسے سامنے سے عثمان آتا نظر آیا ۔ اس نے خود کو چھپانے کی کوشش کی مگر عثمان اس کے چہرے کی پریشانی دیکھ چکا تھا چنانچہ اس نے کامران کی خیریت پوچھی تو کامران نہ چاہتے ہوئے بھی اسے سب کچھ بتا بیٹھا ۔ عثمان نے فوراً اپنی جیب سے کچھ رقم نکالی اور کامران کے حوالے کردی ۔ کامران بے ساختہ عثمان کے گلے لگ کر رونے لگا ۔ اس کے بعد کامران کے دل سے عثمان کیلئے تمام نفرت و حسد جاتا رہا ۔ وہ دونوں اب بہت ہی اچھے دوست تھے ۔ کچھ ماہ بعد رزلٹ آیا تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی ، ان کے نمبر برابر آئے تھے ۔ ایک بار پھر کامران نے عثمان کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو عثمان نے کہا ’’ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا تھا ۔ تم میرے سچے پکے دوست ہو ! ‘‘ عثمان کی بات سو فیصد صحیح تھی ، بھلا سچی پکی دوستی میں بھی کوئی احسان ہوتا ہے ؟