مزاجِ عشق کی ایذا پسندیاں نہ گئیں
جو بے وفا تھے اُنھیں سے وفا قریب رہی
میراکمار کا دورۂ تلنگانہ
اپوزیشن کی صدارتی امیدوار میراکمار کے دورۂ حیدرآباد کے موقع پر قیام تلنگانہ میں ان کے رول اور بحیثیت لوک سبھا اسپیکر تلنگانہ بل کی منظوری میں ان کے سرگرم ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے پردیش کانگریس قائدین نے چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ کی موافق این ڈی اے پالیسی پر تنقید کی ہے ۔ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں این ڈی اے نے سابق گورنر بہار رامناتھ کووند کو امیدوار بنایا ہے ۔ کووند نے بھی تلنگانہ اور آندھراپردیش کا دورہ کرکے الکٹورل کالج کو موافق این ڈی اے امیدوار بنانے کی مہم شروع کی ہے۔ یہاں کووند اور میراکمار کی انتخابی مہم میں فرق یہ ہے کہ تلنگانہ کی تشکیل میں پیش پیش رہنے کا ادعا کرنے والی اپوزیشن پارٹی کانگریس کو تلنگانہ تحریک کے روح رواں چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کی بے رخی کی شکایت ہے ۔ ان پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ موقع پرستی کی سیاست میں ملوث ہیں۔ کے سی آر نے مرکزی حکومت کے امیدوار کووند کی حمایت کی ہے یہ واضح ہے مگر ان کے دورۂ تلنگانہ کے موقع پر ٹی آر ایس کی جانب سے خیرمقدمی ہورڈنگس نصب کروائے جانے پر تلنگانہ تحریک کے دیگر حامیوں نے اعتراض کیا ہے کیوں کہ تلنگانہ تحریک کی مخالفت کرنے والوں کو آج نئی ریاست کی حکومت کی جانب سے پذیرائی کرنا افسوسناک کہا جارہا ہے ۔ کووند نے اپنے دورہ کے دوران خود کو کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کا ادعا کیا لیکن وہ بی جے پی کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ ان دو تلگو ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ میں ان کے حق میں الکٹورل کالج مضبوط ہے ۔ سیاسی طرفداری اور احسان کا رخ تبدیل کرنے میں سیاسی پارٹیوں اور ان کے قائدین کو ملکہ حاصل ہوتا ہے اس لئے کے سی آر پر یہی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انھوں نے تلنگانہ کے حصول میں جس طرح کی جدوجہد کی تھی ان کی جدوجہد کو کامیاب بنانے میں ہم رول ادا کرنے والوں کو انھوں نے بری طرح نظرانداز کیا بلکہ دھوکہ دہی سے کام لیا ہے ۔ خود کو سیکولر پارٹی قرار دینے والی ٹی آر ایس نے بی جے پی سے ہاتھ ملاکر ریاست تلنگانہ کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر سیاسی ضرب لگائی ہے جبکہ ٹی آر ایس کے قائدین اس ریاست تلنگانہ کو گنگا جمنی تہذیب کیلئے ملک کے سامنے شاندار مثال قرار دیتے ہیں۔ ٹی آر ایس قائدین کو پارٹی سربراہ کی موافق فرقہ پرستانہ پالیسیوں کی خبر ہی نہیں ہے تو پھر انھیں سال 2019 ء کے اسمبلی و لوک سبھا انتخابات میں تلنگانہ کے سیکولر رائے دہندوں کا سامنا کرنے میں شرم محسوس ہوگی ۔ ٹی آر ایس کی طرح اگر حیدرآباد کی مقامی جماعت بھی بی جے پی کے امیدوار کی تائید کرتی ہے تو یہ سیکولر ہندوستان کے سیکولر عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دینے کے مترادف ہوگا ۔ اپوزیشن حلقوں میں یہی خیال پایا جاتا ہے کہ ان کی امیدوارہ میراکمار کو سیکولر پارٹیوں کا ساتھ حاصل ہوگا ۔ مقامی جماعت بھی اپوزیشن کی صف میں رہ کر میرا کمار کیلئے اپنی تائید کا اعلان کرتی ہے تو یہ اپوزیشن کے سیکولر اتحاد کو مضبو بنانے میں مدد ملے گی لیکن این ڈی اے امیدوار کو ووٹ ڈالا جاتا ہے تو یہ پارٹی کردار پر سوال اُٹھنے والا فیصلہ سمجھا جائے گا ۔ میرا کمار کے دورۂ حیدرآباد کے موقع پر چیف منسٹر کے چندرشیکھر اؤ نے میرا کمار کے فون کو بھی وصول نہیں کیا ہے تو یہ ان کی اپنی سیاسی مجبوری ہوسکتی ہے کیوں کہ مرکز میں پہلے ہی اپنی طرفداری کا اعلان کرنے والے لیڈر سے اپوزیشن امیدوار کا رجوع ہونا فضول ہی تھا ۔ جب کے سی آر نے برسرعام اپنی تائید کا اعلان کردیا ہے تو ان سے فون کرکے حمایت کی اپیل کرنے کی اپوزیشن کی کوشش رائیگاں ہی جائے گی ۔ اس پر اپوزیشن کو کے سی آر کے رویہ کے بارے میں شکایت کرنے یا افسوس کا اظہار کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی ۔ میراکمار کا تلنگانہ سے جذباتی طورپر لگاؤ ہے کیوں کہ ان کے والد بابو جگجیون رام کو اس خطہ کے عوام کی اکثریت دل و جان سے محبت کرتی ہے ۔ لہذا میراکمار اپنے والد کو حاصل تلنگانہ عوام کی محبت کا صلہ مانگنے کے لئے یہاں ہونچی تو انھیں مایوس کردیا گیا ۔ میراکمار نے ٹی آر ایس کے قائدین سے اپیل تو کی ہے کہ وہ اپنی ضمیر کی آواز پر ووٹ دیں کیوں کہ پارٹی سربراہ نے اپنا فیصلہ یکطرفہ کیا ہے تو کم از کم ٹی آر ایس کے قائدین کو تلنگانہ کے عوام کے جذبات کے احترام میں ضمیر کی آواز پر اپوزیشن امیدوار کے حق میں ووٹ دینا چاہئے ۔