بی جے پی کے جگا ریڈی کی مخالف تلنگانہ مہم سے نقصان ممکن ، 14 امیدواروں کی انتخابی میدان میں مقابلہ آرائی
حیدرآباد۔/11ستمبر، ( سیاست نیوز) میدک لوک سبھا حلقہ کے ضمنی چناؤ کے سلسلہ میں آج انتخابی مہم اختتام کو پہنچی جبکہ ہفتہ کے دن رائے دہی ہوگی۔ اگرچہ اس حلقہ میں ٹی آر ایس کو کانگریس اور بی جے پی و تلگودیشم کے متحدہ امیدواروں سے مقابلہ ہے لیکن رائے دہندوں کے رجحان کے مطابق تلنگانہ جذبہ ٹی آر ایس کی کامیابی میں مددگار ثابت ہوگا۔ مختلف سروے رپورٹس اور سیاسی پارٹیوں کے تجزیہ کے مطابق میدک لوک سبھا کی نشست دوبارہ ٹی آر ایس کے قبضہ میں رہے گی۔ 14برسوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد علحدہ تلنگانہ ریاست کے حصول کے بعد برسر اقتدار پارٹی کیلئے یہ پہلا ضمنی چناؤ ہے۔ تلنگانہ جذبہ کی موجودگی اور میدک میں ٹی آر ایس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دیگر جماعتوں کی مہم کے اثر انداز ہونے کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی نے اگرچہ اپنی مہم میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن اندرونی طور پر قائدین اپنی پارٹیوں کی شکست کو تسلیم کررہے ہیں۔ 2جون کو نئی ریاست تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت کے قیام کے بعد چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کیلئے میدک لوک سبھا حلقہ کا ضمنی چناؤ کسی چیلنج سے کم نہیں۔ انہوں نے اس حلقہ میں پارٹی امیدوار کی بھاری اکثریت سے کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے حکمت عملی تیار کی ہے اور تمام وزراء، ارکان اسمبلی اور اہم قائدین کو انتخابی مہم میں جھونک دیا گیا۔ ہر اسمبلی حلقہ کیلئے ایک وزیر کو انچارج مقرر کیا گیا جبکہ مجموعی طور پر انتخابی مہم کی کمان وزیر آبپاشی ہریش راؤ کو سونپی گئی۔ میدک لوک سبھا حلقہ کے تحت آنے والے تمام اسمبلی حلقہ جات پر ٹی آر ایس کا قبضہ ہے لہذا اس کے امیدوار کی کامیابی یقینی سمجھی جارہی ہے۔ اس حلقہ کی تاریخی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی بھی اس حلقہ کی نمائندگی کرچکی ہیں۔ تجزیہ کے مطابق رائے دہندوں کا یہ احساس ہے کہ برسراقتدار ٹی آر ایس تلنگانہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے لہذا اس کے امیدوار کی کامیابی ان کے حق میں بہتر ہوگی۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ جو حلقہ لوک سبھا میدک اور حلقہ اسمبلی گجویل سے منتخب ہوئے تھے بعد میں انہوں نے لوک سبھا کی نشست سے استعفی دے دیا جس کے باعث ضمنی چناؤ ہورہے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے سابق وزیر سنیتا لکشما ریڈی کو میدان میں اُتارا ہے جبکہ بی جے پی اور تلگودیشم کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے جگاریڈی مقابلہ کررہے ہیں جو حالیہ انتخابات تک کانگریس پارٹی میں تھے اور انہوں نے متحدہ آندھرا کے حامی قائدین کے ساتھ مل کر تشکیل تلنگانہ کی مخالفت کی تھی۔ تلنگانہ کی مخالفت میں جگا ریڈی کی سرگرمیاں بھی ان کیلئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہیں۔اگرچہ بعض علاقوں میں بی جے پی اپنا اثر رکھتی ہے لیکن مجموعی طور پر اس کی کامیابی کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں۔ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تلگودیشم قائدین نے بھی بی جے پی کی انتخابی مہم میں حصہ لیا جبکہ بی جے پی کے دو مرکزی وزراء سدانند گوڑا اور پرکاش جاوڈیکر نے انتخابی مہم کے آخری دن گجویل میں جلسہ عام میں شرکت کی۔ میدک بنیادی طور پر ٹی آر ایس کا گڑھ مانا جاتا ہے اور چندر شیکھر راؤ کا آبائی ضلع ہے۔ 2001میں ٹی آر ایس کے قیام کے بعد سے پارٹی ضلع میں مضبوط موقف رکھتی ہے۔ ٹی آر ایس قائدین کو یقین ہے کہ حکومت کے 100دن کی تکمیل پر میدک کے عوام ٹی آر ایس امیدوار پربھاکر ریڈی کو کامیاب کرتے ہوئے یہ نشست چیف منسٹر کو بطور تحفہ پیش کریں گے۔ کانگریس اور بی جے پی نے حکومت کی سو دن کی کارکردگی کو انتخابی موضوع بنایا ہے تاہم برسراقتدار پارٹی کا کہنا ہے کہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کی جانچ کیلئے 100دن ناکافی ہیں۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے صرف ایک دن کیلئے پارٹی امیدوار کی مہم میں حصہ لیا اور نرسا پور میں جلسہ عام میں شرکت کی۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے کئے گئے تمام وعدوں اور فیصلوں پر دسہرہ سے عمل آوری کا تیقن دیا ہے۔ ٹی آر ایس نے مشہور صنعت کار کے پربھاکر ریڈی کو امیدوار بنایا ہے جو چندر شیکھر راؤ سے قریب مانے جاتے ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں ٹی آر ایس کو 3لاکھ 97 ہزار ووٹ کی اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس مرتبہ ٹی آر ایس مزید زائد اکثریت کے ساتھ کامیابی کی مساعی کررہی ہے۔ 1980ء میں آنجہانی اندرا گاندھی نے 2لاکھ 19ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ میدک لوک سبھا حلقہ کے رائے دہندوں کی جملہ تعداد 15لاکھ 36ہزار ہے اور 14امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔