ہپااین۔یکم نومبر ( سیاست ڈاٹ کام ) کرین کے دیہاتوں گذشتہ 70سال کے دوران پہلی بار نذرآتش کرنے کے بعد مردوں کو سزائے موت دے دی گئی تھی اور خواتین کی عصمت ریزی کی گئی تھی جب کہ اقلیتوں کی میانمار کی فوجی حکومت کے ساتھ جنگ ہوئی تھی۔ دنیا کی یہ طویل ترین شورش پسندی تھی۔ اپنے آبائی وطن کو ’’ خفیہ دارفور‘‘ قرار دیتے ہوئے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے اورجنرلوںکو یا پڑوسی ملک تھائی لینڈ کو منتقل کو ہوگئے تھے ۔ کئی زندہ بچ جانے والے افراد اپنی امیدیں 8نومبر کو مقرر تاریخی انتخابات سے وابستہ کئے ہوئے ہیں جن میں فوج کی حمایت یافتہ برسراقتدار پارٹی کا مقابلہ جمہوریت قانون افسانوی قائد آنگ سانگ سوچی سے ہونے والا ہے ۔ کئی نسلوں کی پارٹیاں مقابلہ میں ہیں ۔ یہاں کی اقلیتوں کو خوف ہے کہ وہ بھی حمایت یافتہ یکجہتی و ترقی پارٹی ریاست کرین سے انتخابی مقابلوں میں کامیاب ہوگی کیونکہ 15لاکھ افراد اس کی تائید کرتے ہیں اور اس کی کامیابی کے بعد اس ریاست کی اقلیتوں کے لئے جہنم کا دروازہ کھل جائے گا ۔ اگر یہ پارٹی برسراقتدار آجائے تو ہم بھکاری بن جائیں گے اور اگر وہ ناکام ہوتے ہیں تو موجودہ ملک تبدیل ہوجائے گا لیکن آخری مقابلہ یقیناً ہوگا ۔ نسلی اقلیتوں میں تقریباً 40فیصد میانمار کے عوام شامل ہیں ۔ جب کہ جملہ آبادی پانچ کروڑ 20لاکھ ہے ۔ ان کیلئے یہ انتخابات جمہوریت کی سمت خاردار راستے کی جانب پیشرفت سے کم نہیں ہے ۔