میانمار میں فوج کی تائید میںزبردست جلوس

روہنگیا مسلمانوں کا احتجاج بے اثر ‘ راکھین سے بنگلہ دیش کو 6لاکھ سے زیادہ افراد کی منتقلی
یانگون ۔ 29اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام ) میانمار کی فوج کی تائید میں ہزاروں افراد نے پورے ملک میں خاص طور پر یانگون کے مضافاتی علاقہ میں جلوس نکالا ۔ عالمی اداروں کا الزام ہے کہ عالمی برادری روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے خارج کردینا چاہتی ہے۔ 6لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان میانمار کی مغربی ریاست راکھین سے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کو فرار ہوچکے ہیں ۔ اگست کے اواخر سے اب تک عسکریت پسندوں کے اقلیت گروپ پر حملوں سے گھبراکر جان بچانے کیلئے روہنگیا مسلمان پڑوسی ملک بنگلہ دیش منتقل ہورہے ہیں ۔ اقوام متحدہ عالمی سطح پر میانمار کی فوج کی کارروائی کی مذمت کرچکا ہے لیکن فوج کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے ۔ امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے سربراہ فوج آنگ ہیاسنگ سے فون پر بات کی اور اپنی تشویش سے انہیں واقف کروایا ۔

ریاست راکھین میں فوج کے مبینہ مظالم کے خلاف احتجاج کیا اور پُرزور انداز میں روہنگیا پناہ گزینوں کی عاجلانہ اور محفوظ انداز میں وطن واپسی کا مطالبہ کیا لیکن میانمار کے اندر فوج کی تائید میں اضافہ ہوا ہے جس سے کبھی مقامی عوام خوفزدہ تھے اور اس سے نفرت کرتے تھے لیکن اس کی 50سالہ حکومت کے خاتمہ کے بعد میانمار کے عوام کا موقف فوج کے بارے میں برعکس ہوچکا ہے ۔ 2015ء میں انتخابات منعقد ہوئے تھے اور فوج کے ارکان مقننہ کو شرمناک شکست ہوئی ۔

انتخابات کے نتیجہ میں آنگ سان سوچی کی جمہوریت دوست پارٹی برسراقتدار آئی ۔ احتجاجی مظاہرین آج کے جلوس میں سربراہ فوج آنگ ہیاسنگ کی تائید میں بیانرس اٹھائے ہوئے تھے ۔ بین الاقوامی برادری کی مذمت میں نعرے بھی بیانرس پر تحریر تھے ۔ میانمارکی فوج ٹاٹامڈا کو ملک کے لئے لازمی قرار دیتے ہوئے احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ فوج نسلی گروپس ‘ مسئلوں اور مذہب کی محافظ ہیں ۔ جلوس دارالحکومت یانگون کی سڑکوں سے گذرتے ہوئے افسانوی سولے پگوڑا پر جلسہ عام میں تبدیل ہوگیا ۔ روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کو میانمار کے نسلی گروپ یہاں کا شہری تسلیم نہیں کرتے ‘ انہیں اندیشہ ہے کہ ریاست راکھین میں مسلم اکثریت ہوجائے گی اور بدھ مت کے پیرو اقلیت بن جائیں گے ۔