میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کیخلاف زبردست احتجاجی ریالیاں

حکومت کا نرم گوشہ بودھ راہبوں کے سینے پر سانپ لوٹ گئے
ینگون ۔ 4 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) میانمار کے راکھین اسٹیٹ میں آج مسلمانوں کے خلاف بدھسٹوں نے زبردست احتجاج منظم کیا جن میں اکثریت بودھ راہبوں کی تھی۔ احتجاج مسلمانوں کے حق میں حکومت کے کئے گئے ایک فیصلہ کے خلاف کیا گیا۔ یاد رہیکہ حالیہ دنوں میں میانمار میں مسلمانوں کے خلاف شرانگیزی اور نفرت میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جہاں بودھ راہبوں نے دو مساجد کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں نذرآتش کردیا۔ میانمار میں 2012ء سے مسلکی تشدد اس قدر بڑھ گیا ہیکہ اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ راکھین اسٹیٹ جہاں ایک ملین روہنگیا مسلمان آباد ہیں لیکن انہیں کوئی شہری حقوق حاصل نہیں ہیں۔ مزید برآں ان کے خلاف برپا کئے جانے والے تشدد نے انہیں پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ ان کی بدقسمتی یہ ہیکہ انہیں بنگالی کہا جاتا ہے یا پھر بنگلہ دیش سے غیرقانونی طور پر آنے والے تارکین وطن کہا جاتا ہے۔ آنگ سان سوچی کی نئی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے تعلق سے پیدا ہوئے تنازعہ کو یہ کہہ کر ختم کرنے کی کوشش کی ہیکہ انہیں روہنگیا مسلمان نہ کہا جائے بلکہ راکھین کی مسلم کمیونٹی کہا جائے لیکن احتجاجیوں کا یہ کہنا ہیکہ ان کیلئے یہ بات بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اس طرح ایک بودھ ریاست میں مسلمانوں کو بھی مسلمہ حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ احتجاج منظم کرنے آرگنائزر کیوت سین نے کہا کہ ہم ’’مسلم کمیونٹی ان راکھین اسٹیٹ‘’ کی اصطلاح بھی نہیںمان سکتے۔ احتجاجی ریالی میں زائد از 1000 افراد بشمول بودھ راہبوں نے شرکت کی جبکہ مستقر تھانڈوے میں بھی ہزاروں افراد نے احتجاجی ریالی میں حصہ لیا۔ ان کا یہ مطالبہ ہیکہ بنگالیوں کو بنگالی ہی کہا جائے۔ آنگ سان سوچی جو عرصہ دراز سے جمہوریت حامی قائد کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت رکھتی ہیں اور میانمار کے انتخابات میں گذشتہ سال زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے فوجی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا تھا لیکن دائیں بازو کے گروپس انہیں ہمیشہ تنقیدوں کا نشانہ بناتے رہے کہ انہوں نے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔