میانمار قائد آنگ سان سوچی کا روہنگیا مسلمانوں سے اِظہارِ یگانگت سے اِنکار

’’بنگالی‘‘ مسلمانوں کی مساجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، نسل کشی نہیں کی گئی ، ریاستی کمیشن کی عبوری رپورٹ

ینگون۔ 4 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) میانمار کے راکھین اسٹیٹ میں رونما ہوئے تشدد کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے ایک کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی تردید کی ہے کہ سکیورٹی فورسیس نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی ہے۔ یاد رہے کہ یہ فیصلہ اس ویڈیو کے عام ہونے کے کافی دنوں بعد دیا گیا ہے جہاں پولیس فورس کو اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کو زدوکوب کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو وہاں بدھسٹ اکثریت کے ذریعہ نہ صرف ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ہلاک بھی کیا جارہا ہے۔ ماہ اکتوبر میں پولیس چوکیوں پر روہنگیا مسلمانوں کے حملے کے بعد ان کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی تھی جس میں ہزاروں روہنگیا مسلمان فرار ہوگئے تھے جبکہ درجنوں ہلاک بھی ہوئے تھے۔ دوسری طرف فرار ہوجانے والوں کو یہ شکایت رہی کہ وہ بنگلہ دیش پہنچنے میں کامیاب ضرور ہوئے تاہم وہاں بھی روہنگیا مسلمان خواتین کی عصمت ریزی کی گئی، آتشزنی، قتل اور اذیتوں کے دلدوز جرائم کا ارتکاب کیا گیا اور یہ جرائم کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود پولیس اور فوجی اہلکار تھے۔ میانمار حکومت کی سربراہ اس وقت نوبل انعام یافتہ خاتون قائد آنگ سان سوچی ہیں، نے بھی حیرت انگیز طور پر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار یگانگت نہیں کیا بلکہ اُلٹا یہ کہہ دیا کہ روہنگیا مسلمانوں نے پولیس اور فوجی عہدیداروں پر عصمت ریزی اور دیگر سنگین جرائم کے ارتکاب کا جو الزام عائد کیا ہے، وہ سراسر من گھڑت اور بے بنیاد ہے جس کی وجہ سے میانمار پر اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کا بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔

یاد رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی تحقیقات کیلئے سرکاری سطح پر ایک کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا جس نے آج اپنی عبوری رپورٹ پیش کردی جس میں روہنگیا مسلمانوں کے اس ادعا کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ پولیس اور فوج نے روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے لئے کوئی پرتشدد کارروائی کی۔ دراصل یہ تحقیقات بھی اس وقت کی گئی تھی جب حکومت نے اس متنازعہ ویڈیو کو دیکھا تھا جس میں پولیس اہلکاروں کو روہنگیا مسلمانوں کو لاتوں سے مارتا ہوا دکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو کی فلمبندی بھی ایک آفیسر نے ہی کی تھی جس کے افشاء کے بعد متعدد افسران کو معطل کردیا گیا تھا تاہم ویڈیو کے افشاء کے بعد حکومت کے تئیں عوامی برہمی کھل کر سامنے آگئی کہ کس طرح حکومت مسلسل اس بات سے انکار کرتی رہی کہ پولیس اور فوج نے انسانی حقوق کی دل کھول کر خلاف ورزی کی۔ ریاستی میڈیا میں جس عبوری رپورٹ کو پیش کیا گیا ہے، اس میں واضح طور پر یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ بنگالی (روہنگیا مسلمانوں کو ’’بنگالی‘‘ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے) مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو، ان کی مساجد اور دیگر مذہبی عمارت جو گڑبڑ زدہ علاقوں میں موجود ہیں، اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ان کی نسل کشی نہیں کی گئی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہے کہ میانمار روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی اقلیت تسلیم کرنے تیار نہیں بلکہ انہیں ’’بنگالی‘‘ تصور کرتا ہے یا پڑوسی بنگلہ دیش سے غیرقانونی طور پر ہجرت کرکے میانمار میں بس جانے والے مسلمانوں سے تعبیر کرتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے بیشتر روہنگیا مسلمان ہیں جو میانمار میں گزشتہ کئی نسلوں سے آباد ہیں۔ مذکورہ کمیشن کو عصمت ریزی کے بھی معقول شواہد نہیں ملے البتہ ان دعوؤں پر ہنوز غوروخوض کیا جارہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو غیرقانونی طور پر گرفتار کرتے ہوئے ان کو اذیتیں دی گئیں۔ رپورٹ میں بیرونی تعاون کے حامل انتہا پسندوں کو گزشتہ سال اکتوبر میں سکیورٹی فورسیس پر حملہ کرنے کیلئے مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے جن کا مقصد ملک میں تشدد اور فساد برپا کرنا تھا۔