عارضی اگر ہوں تو تلخیاں گوارا ہیں
یہ یقین تو آئے کہ دوا مجرب ہے
مہنگائی پر قابو پانا ضروری
عوام کے لئے تیار کئے جانے والے عام بجٹ میں اگر سیاسی مقاصد کی ملاوٹ ہوتی ہے تو اس کے فوائد عارضی اور مصائب دائمی ہوں گے۔ نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اپنا پہلا بجٹ پیش کرنے والی ہے۔ جاریہ بجٹ سیشن کے دوران 8 جولائی کو ریلوے اور 17 جولائی کو عام بجٹ کی پیشکشی کے ساتھ وزیر فینانس کئی ایک ٹیکس اصلاحات کا بھی اعلان کرتے ہیں تو اس سے تنخواہ یاب طبقہ کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہوگا۔ شخصی اِنکم ٹیکس کی استثنیٰ حد کو 3 لاکھ روپئے کردینے پر غور ہورہا ہے۔ دیگر ٹیکس اصلاحات کے لئے بھی زور دیا جارہا ہے۔ اس سے ملک میں مالیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لئے متبادل کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔ بجٹ سیشن میں روز مرہ کی کارروائی کو پُرامن طور پر چلانا کس حد تک ممکن ہوسکے گا؟ یہ اپوزیشن اور سرکاری بینچوں پر موجود ارکان کے حسن رویہ پر منحصر ہے، کیونکہ مودی حکومت کے لئے یہ پہلا بجٹ سیشن ہنگامہ خیز ہی ہوگا۔ مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کرنے والی بی جے پی اقتدار پر آنے کے ایک ماہ بعد بھی عوام کو افراط زر کے بے تحاشہ بوجھ سے چھٹکارا نہیں ملا ہے تو اپوزیشن اس مسئلہ پر حکومت کا کان پکڑنے کی کوشش کرے گی۔ ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ اگر کوئی حکومت یا حکمراں طبقہ اپنی ہی جیسی مخلوق پر حکم چلانے کے لئے اقتدار کا استعمال کرتا ہے تو یہ فعل قبیح کہلاتا ہے اور اقتدار کی بلندیاں جلد اس سے روٹھ جاتی ہیں۔ اگر حکمراں طبقہ کا ہوشمند لیڈر خاص کر وزیراعظم اپنے اختیار کو قومی بحران عوامی مسائل کی یکسوئی کے لئے فیصلے صادر کرتا ہے تو اس کو ایک فال نیک سمجھا جائے گا۔ عوام کی اکثریت نے بی جے پی حکومت کو عام انتخابات میں ووٹ سے کامیاب بنایا، مگر اس کے باوجود ایک ماہ ہونے کے بعد بھی عوام کی پریشانیاں کم نہیں ہوئی ہیں تو عام بجٹ سے کوئی راحت و کارنامے کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔ پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن 7 جولائی تا 14 اگست تک جاری رہے گا۔ اس میں مختلف عوامی مسائل کو اُٹھانے کی تیاری کرنے والی اپوزیشن کو بھی سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ کانگریس کو لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹی کا موقف نہیں ملے تو یہ ایک نازک مسئلہ بن جائے گا۔ لوک سبھا اسپیکر کانگریس کے لیڈر کو قائد ایوان تسلیم کرنے میں پس و پیش کریں گی تو اس سے دیگر پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ حکومت نے اپنے اصل بجٹ کی پیشکشی سے قبل ہی ریلوے کرایوں میں اضافہ کردیا تھا۔ مسافر کرایوں میں 14.2 فیصد اور شرح باربرداری پر 6.5 فیصد کے اضافہ کے ذریعہ حکومت مالیاتی بحران سے دوچار ریلوے کو مستحکم کرنے کے لئے 6 ہزار کروڑ روپئے (ایک بلین ڈالر) کا بندوبست کرلیا ہے۔ ریلوے کو کرایوں میں مسافر سبسیڈی دینے سے 26 ہزار کروڑ روپئے کا نقصان ہورہا تھا۔ اب نئی حکومت کو کمزور ہوتی معیشت میں جان ڈالنے کے لئے سخت اور جرأت مندانہ اقدامات کرنے ہیں۔ یہ بھی مشورہ دیا جارہا ہے کہ عوام الناس کو مختلف طریقوں سے دی جانے والی سبسیڈی میں کمی لائی جائے تو ملک کا مالیاتی ڈھانچہ مضبوط ہوسکتا ہے۔ ایک ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ اور افراط زر پر قابو پانے میں ناکام نریندر مودی حکومت اپنے بجٹ کے ذریعہ ملک کے اندر سرمایہ کاروں کے موڈ اور رائے دہندوں کی توقعات پر کس حد تک کھری اُترے گی؟ یہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی اچھی تبدیلی راتوں رات نہیں ہوتی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حکومت کوئی ٹھوس قدم ہی نہ اُٹھائے۔ نریندر مودی نے اب تک اپنی خاموشی کے ذریعہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے اندر عوام الناس کے لئے طویل میعادی منصوبہ فروغ پارہا ہے۔ آخر میں طویل میعادی منصوبہ کب منظر عام پر آئے گا، اس کا عوام کو شدت سے انتظار ہے۔ اگر بجٹ سیشن ’نام بڑے درشن چھوٹے‘ ثابت ہوتا ہے تو نریندر مودی کی یہ معنی خیز خاموشی پر کئی تبصرے اور اندیشے ظاہر ہونے لگیں گے۔ گجرات میں 13 سال تک حکمرانی کرنے والے نریندر مودی نے اپنی ریاست کی مثالی ترقی کے نعرے کے ذریعہ ہی نئی دہلی میں اقتدار کے مرکز کو حاصل کرلیا ہے، لیکن ’اچھے دن آنے والے ہیں‘ کا عہد پورا ہونے کے آثار دُور دُور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ مودی نے یہ تو اشارہ دیا ہے کہ عوام کو کڑوی گولی کھانی پڑے گی، مگر مہنگائی سے دوچار عوام الناس کی اکثریت مودی سے یہی خواہش کررہی ہے کہ وہ میٹھی یا کڑوی جو بھی گولی دینا چاہتے ہیں، جلد سے جلد دیں تاکہ یہ تو معلوم ہوسکے کہ آخر ان کی کڑوی گولی کا اثر کتنا تیر بہ ہدف ہے؟ عوام کو اب تک مودی کی کڑوی گولی ملی اور نہ ہی مہنگائی سے چھٹکارا حاصل ہوا۔ اگر عام بجٹ میں نریندر مودی کی معاشی پالیسیوں کو کھوکھلا پایا گیا تو عوام کے اس گمان کو تقویت ملے گی کہ نریندر مودی صرف گجرات تک ہی محدود ہیں۔ ان کی پالیسیاں سارے ہندوستان کے لئے کام نہیں آئیں گی۔ مہنگائی پر قابو پانا ہی مودی حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے۔