مہاراشٹرا ‘ بی جے پی حکومت کا خط اعتماد

اک دور تھا جب خلق کی خدمت تھی سیاست
ہے عصری سیاست تو مفادات کی ہم نام
مہاراشٹرا ‘ بی جے پی حکومت کا خط اعتماد
مہاراشٹرا میں دیویندر فرنویس کی قیادت میں تشکیل پائی بی جے پی حکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ہے ۔ مہاراشٹرا اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کے دوران ندائی ووٹ کے ذریعہ چیف منسٹر کی پیش کردہ تحریک اعتماد کو منظور کرلیا گیا ۔ ضابطہ کے اعتبار سے تو فرنویس حکومت نے کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن اخلاقی اور اصولی اعتبار سے ‘ جمہوری اقدار کے اعتبار سے یہ کوئی کامیابی نہیں کہی جاسکتی بلکہ اس کے نتیجہ میں اقتدار کیلئے بی جے پی کی ہوس سامنے آشکار ہوگئی ہے ۔ بی جے پی اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندرمودی نے انتخابی مہم کے دوران اخلاقیات کا درس دیا تھا اور کرپشن کے الزامات عائد کئے تھے ۔ بی جے پی کے دوسرے قائدین ہوں یا نریندرمودی ہوں انہوں نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مہاراشٹرا میں اقتدار ملنے پر شفاف اور کرپشن سے پاک بہتر حکمرانی فراہم کرینگے تاہم حکومت کے امتحان کے پہلے ہی دن اس کے وعدے اور دعوے دونوں ہی غلط ثابت ہوگئے ہیں۔ بی جے پی حکومت نے اقتدار کیلئے جس طرح کی حکمت عملی اختیار کی تھی وہ جمہوری اقدار کے انتہائی مغائر اور جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔ شیوسینا کے ساتھ اتحاد کی بات چیت کی ناکامی اور عملی طور پر شیوسینا کو بیچ راہ پر چھوڑ دینے کے بعد بی جے پی در اصل نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کی کھلے عام تائید حاصل کرنے سے گریز کرنا چاہتی تھی ۔ حالانکہ دونوں جماعتوں کے مابین در پردہ مفاہمت کے تمام آثار واضح ہیں لیکن دونوں ہی جماعتیں ایک دوسرے کی کھلے عام تائید کے ذریعہ اپنے لئے مشکلات کھڑی کرنا نہیں چاہتی تھیں۔ بی جے پی قائدین بشمول نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران این سی پی کو نیشلسٹ کرپٹ پارٹی قرار دیا تھا ۔ اب حکومت حاصل کرنے کیلئے اسی کرپٹ جماعت کی تائید کھلے عام نہیں لیکن در پردہ ضرور حاصل کی جا رہی ہے ۔ بی جے پی اس الزام سے بچنے کیلئے ہنگامہ آرائی کے درمیان انتہائی عامیانہ انداز میں اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ دوسری طرف این سی پی بی جے پی کی مسلسل تنقیدوں کا شکار رہنے کے بعد کھلے عام تائید سے بچنا چاہتی تھی اور اس نے بی جے پی کی بالواسطہ طور پر مدد ضرور کی ہے ۔
بی جے پی مرکز میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ملک کی اہم ترین ریاستوں میں اپنے اقتدار کو یقینی بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ کسی بھی حلیف جماعت کی تائید حاصل کرنے کو بھی تیار نہیں ہے اور اگر کسی سے تائید حاصل کی بھی جا رہی ہے تو اسے وہ مقام اور عزت دینے کو تیار نہیں ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔ انتہائی ہتک آمیز شرائط پر حلیف جماعتوں کو بھی حاشیہ پر رکھا جا رہا ہے ۔ اس کی مثال جہاں مہاراشٹرا میں شیوسینا کی ہے وہیں مستقبل میں پنجاب میں شرومنی اکالی دل کے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ سیاسی توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ بی جے پی کے طرز عمل میں انتہاء درجہ کی خود غرضی اورموقع پرستی عود کر آئی ہے ۔ پارٹی بارہا یہ اعلان کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے کہ اب ملک میں مخلوط سیاست کا دور ختم ہوگیا ہے اور ملک کے عوام نے تنہا بی جے پی کو اقتدار کیلئے ووٹ دیا ہے ۔ بی جے پی کے اپنے سیاسی عزائم بھلے ہی کچھ بھی ہوں لیکن اسے ملک کی حکمران جماعت ہونے کے ناطے جمہوریت کے اصولوں کی اور خود جمہوریت کی دھجیاں اڑانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے تھی لیکن بی جے پی ایسا کر رہی ہے ۔ اس نے مہاراشٹرا اسمبلی میں طرز عمل اختیار کیا تھا وہ حالانکہ اسے ایوان میں تو کامیاب کرچکا ہے لیکن ملک کے عوام نے اس کے دوہرے معیار اور ڈوغلے پن کا کھلے عام مشاہدہ کرلیا ہے ۔انصاف پسند اور جمہوریت کے حامی عوام اس کے جمہوریت سے کھلواڑ کے اس رویہ کو قبول نہیں کرسکتے اور نہ دوسری جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کو اس کی تائید کرنی چاہئے ۔
جہاں سیاسی توسیع پسندی کے عزائم میں بی جے پی کی موقع پرستی واضح ہوگئی ہے وہیں یہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے کہ کرپشن کے معاملات سے نمٹنے میں مودی حکومت بھی مصلحتوں کا شکار ہوجائیگی ۔ جس طرح مسٹر جے پی ندا کو مرکز میں صحت کی وزارت دی گئی ہے وہ اس کی مثال ہے ۔ علاوہ ازیں مہاراشٹرا میں این سی پی قائدین کے خلاف کرپشن کے کئی الزامات ہیں اور خود بی جے پی قائدین نے انتخابی مہم کے دوران ان الزامات اور اسکامس کا حوالہ دیا تھا ۔ اب فرنویس حکومت کی بقا کو یقینی بنانے کیلئے بی جے پی حکومت اس تعلق سے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیگی ۔ اس نے بالواسطہ طور پر ہی صحیح ایک کرپٹ جماعت کی تائید حاصل کی ہے جس سے کرپشن سے نمٹنے کے تئیں اس کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور ساتھ ہی شفاف اور بہتر حکمرانی فراہم کرنے اس کے عوام سے کئے گئے وعدوں کی بھی قلعی کھل گئی ہے ۔