سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست مہاراشٹرا کی سیاست میں انتخابات سے پہلے ہی تبدیلیوں کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ یہاں گذشتہ ربع صدی سے شیوسینا ۔ بی جے پی کے مابین جو اتحاد تھا وہ ختم ہوگیا ہے تو دوسری جانب خودبرسر اقتدار اتحاد کانگریس ۔ این سی پی بھی ختم ہوگیا ہے ۔ اب مہاراشٹرا کی سیاست میں ایک ایسا دلچسپ موڑ آگیا ہے جہاں کوئی بھی جماعت اپنے طور پر حکومت سازی کا دعوی کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد کو یہ یقین تھا کہ اسے کانگریس ۔ این سی پی کی تین معیادوں سے جاری حکومت کے خلاف عوامی برہمی سے فائدہ حاصل ہوگا اور یہ اتحاد حکومت تشکیل دے گا ۔ شائد اقتدار ملنے کی امید ہی تھی کہ دونوں جماعتوں کے مابین چیف منسٹر کے عہدہ کے مسئلہ پر ہی اصل اختلاف پیدا ہوا ۔ شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے پہلی مرتبہ ایک عوامی پلیٹ فارم میں اعلان کیا تھا کہ وہ چیف منسٹر مہاراشٹرا کی ذمہ داری سنبھالنے سے فرار نہیں ہونگے ۔ وہ بال ٹھاکرے کے فرزند ہیں ۔ انہیں کسی عہدہ کا لالچ نہیں ہے لیکن وہ ذمہ داری سے فرار بھی نہیں ہونگے ۔ انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ مہاراشٹرا کا آئندہ چیف منسٹر شیوسینا سے ہی ہوگا ۔ ان کے اس اعلان کے بعد ہی دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات میں شدت پیدا ہوتی گئی اور نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ۔ ادھو ٹھاکرے کے بیان کے بعد بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے زبان کھولنے لگے اور انہوں نے خود ممبئی میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کردیا تھا کہ مہاراشٹرا میں آئندہ حکومت بی جے پی کی قائم ہوگی ۔ اس طرح انہوں نے بھی چیف منسٹر کے عہدہ پر اپنی پارٹی کے ادعا کو پیش کیا تھا ۔ ادھو ٹھاکرے کے اعلان کے بعد امیت شاہ کا بیان ایک طرح سے شیوسینا سربراہ کے بیان سے اختلاف تھا ۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات کی خلیج کم ہونے کی بجائے بڑھتی گئی اور بالآخر گذشتہ 25 سال سے جاری اتحاد ختم ہوگیا ۔ جس طرح سے یہ اتحاد ختم ہوا ہے اس سے یہ ضرور واضح ہوگیا ہے کہ دونوں ہی جماعتوں کو چیف منسٹر کے عہدہ کی لالچ ہے اور وہ اس کیلئے کسی بھی حلیف سے اپنا ناطہ توڑ سکتے ہیں۔
جس طرح سینا ۔ بی جے پی اتحاد اقتدار کی ہوس کی وجہ سے ختم ہوا تقریبا وہی وجوہات کانگریس ۔ این سی پی اتحاد کے ختم ہونے کے ہیں۔ این سی پی گذشتہ تین معیادوں سے مہاراشٹرا میں کانگریس حکومت کی تائیدکر رہی ہے اور حکومت میں شامل بھی ہے ۔ تاہم این سی پی کا اس بار اصرار تھا کہ دونوں جماعتوں کو 288 رکنی مہاراشٹرا اسمبلی میں مساوی نشستوں پر مقابلہ کرنا چاہئے اور چیف منسٹر کا عہدہ بھی باری باری دونوں جماعتوں کو ملنا چاہئے ۔ کانگریس یہاں اپنا اقتدار چھوڑنے کو تیار نظر نہیں آتی اور چیف منسٹر پرتھوی راج چاوان نے اس کو واضح بھی کردیا تھا ۔ ریاست میں دونوں ہی اتحاد ختم ہوگئے ہیں اور اب عوام کے سامنے دو کی بجائے چار رخی مقابلہ رہ گیا ہے ۔ عوام کو اب کسی اتحاد کے امیدوار کی بجائے کسی جماعت کے امیدوار کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہوگا اور موجودہ صورتحال میں مہاراشٹرا کے رائے دہندوں کو انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ اور سیاسی شعور کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کی ہوس ہمیشہ ہوتی ہے لیکن مہاراشٹرا میں اتحادی سیاست کا ایک دور رہا ہے اور اقتدار کی ہوس کے نتیجہ میں اس کا خاتمہ بھی عمل میں آگیا ۔ ان جماعتوں کو اقتدار کی ہوس نے ہی ایک دوسرے سے اتحاد کرنے پر مجبور کردیا تھا اور اب بدلتے ہوئے حالات میں ہر جماعت اقتدار پر اپنا تسلط اور قبضہ چاہتی ہے ۔ اسی اقتدار کی ہوس کے نتیجہ میں یہ دونوں اتحاد ٹوٹ گئے ہیں اور اب انتخابی مہم میں یہ جماعتیں جو ایک طویل عرصہ سے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور اقتدار میں شراکت داری بھی نبھائی گئی ایک دوسرے پر تنقیدوں سے گریز نہیں کرینگی ۔
آثار و قرائن سے یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹرا میں انتخابات کے بعد معلق اسمبلی ہی تشکیل پائیگی اور اس وقت پھر سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے اتحاد کی ضرورت پیش آئیگی ۔ اس وقت یہ جماعتیں اپنے اپنے فائدہ کیلئے پھر تعلقات جوڑنے یا از سر نو سیاسی صف بندی سے بھی گریز نہیں کرینگی ۔ یہ ان جماعتوں کی موقع پرستی ہے اور اس کا مہاراشٹرا کے رائے دہندوں کو عملی ثبوت بھی مل گیا ہے ۔ مہاراشٹرا ایک ایسی ریاست ہے جو صنعتی شعبہ میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور وہاں موقع پرست سیاست دانوں نے مستقبل میں عدم استحکام کے اندیشے پیدا کردئے ہیں۔ سیاسی موقع پرستی کی بد ترین مثال قائم کی ہے ۔ مہاراشٹرا کے عوام کو اس موقع پر اپنی سیاسی سمجھ بوجھ اور جمہوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ووٹ استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔