مہاراشٹرا کابینہ میں شیوسینا کی شمولیت

ہم ہمیشہ کے سیر چشم سہی
تجھ کو دیکھیں تو آنکھ بھرتی نہیں
مہاراشٹرا کابینہ میں شیوسینا کی شمولیت
جس طرح سیاست میں کوئی مستقل دشمن نہیںہوتا اسی طرح کوئی مستقل دوست بھی نہیں ہوتا ۔ یہ کہاوت مہاراشٹرا میں شیوسینا ۔ بی جے پی اتحاد میں دیکھنے میں آئی ہے جہاں شیوسینا نے بی جے پی کے ساتھ اپنے پچیس سالہ قدیم رشتوں کوتوڑتے ہوئے اسمبلی انتخابات میں تنہا مقابلہ کیا تھا ۔ انتخابات میں شیوسینا کو توقعات کے مطابق کامیابی نہیں ملی اور بی جے پی نے ریاست میں بڑی جماعت کا موقف حاصل کیا ۔ اقتدار میںشراکت داری کے مسئلہ پر بھی دونوں جماعتوں میں وقت پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا جس کے بعد این سی پی کو حکومت سے قربتیں بڑھانے کا موقع مل گیا ۔ این سی پی کی د وستی ابھی کسی منطقی موقف تک پہونچ بھی نہیں پائی تھی کہ پھر ایک بار شیوسینا ۔ بی جے پی میں اتحاد ہوگیا ۔ شیوسینا کے دس وزرا کو آج ایک تقریب میں دیویندر فرنویس کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے ۔ اس طرح شیوسینا ۔ بی جے پی کے طویل اور قدیم رشتے ایک بار پھر استوار ہوگئے ہیں ۔ شیوسینا کی شمولیت سے حالانکہ اسے اقتدار میں حصہ داری تو مل گئی ہے لیکن حقیقی معنوں میں پارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگئی ہے ۔ اس سارے معاملہ میں شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے کی قائدانہ صلاحیتیں بھی آشکار ہوگئی ہیں اور یہ واضح ہوگیا ہے کہ وہ دور اندیشی اور سیاسی بصیرت سے عاری ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرنے میں جلدی تھی ۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے سیاسی منظر نامہ کو پڑھنے میں بھی غلطی کی تھی یا پھر وہ اپنے والد کی شخصیت کے اثر کی وجہ سے خوش فہمیوں کا شکار تھے ۔ ادھو ٹھاکرے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے باوجود اسمبلی انتخابات میں اس کے اثر کو قبول کرنے یا اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا لازمی اثر یہ ہوا ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ حالانکہ اقتدار میں شریک ہوگئے لیکن ان کی سیاسی ساکھ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی ہے ۔ خود شیوسینا کے حلقوں میں بھی اس کا احساس دکھائی دے رہا تھا اور کچھ قائدین ڈھکے چھپے انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے بی جے پی سے رشتوں کو توڑنے کے مخالف تھے اور جب رشتے ختم کرلئے گئے تو دو بارہ جوڑنے کی مخالفت بھی کی گئی تھی ۔
مراٹھا وقار کی بات کرتے ہوئے رائے دہندوں کو رجھانے کی ادھو ٹھاکرے کی کوششیں اس حد تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں جتنی انہیں توقع تھی ۔ اس کے علاوہ مرکز میں این ڈی اے حکومت کے اقتدار حاصل کرنے کے اثرات مہاراشٹرا کی سیاست پر بھی رہے اور شیوسینا سے زیادہ بی جے پی کے حق میں عوام نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا ۔ یہ ایسی سیاسی صورتحال تھی جس کا انتخابات سے قبل ہی اندازہ ہوتا جا رہا تھا ۔ بی جے پی کے حوصلے مرکز کے نتائج کے بعد بلند تھے اور خود مہاراشٹرا سے انہیں حوصلہ افزا رپورٹس حاصل ہو رہی تھیں۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے شیوسینا کے دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے سیاسی سفر کو تنہا آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی رہی ہے ۔ بی جے پی کی ریاستی قیادت نے حالات کا درست اندازہ کرتے ہوئے شیوسینا کو نظر انداز کیا تھا اور یہ کام شیوسینا نہیں کرسکی ۔ شیوسینا کی جو شبیہہ رائے دہندوں کے ذہنوں میں تھی وہ متاثر ضرور ہوئی ہے ۔ اس نے سیاسی میدان میں اپنی وقعت ایک حد تک کھو دی ہے اور پارٹی کے سربراہ ادھو ٹھاکرے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کرسکے ہیں۔ پارٹی قائدین کا ایک طبقہ خود اس کا اظہار کر رہا تھا لیکن ادھو اپنی پارٹی کے کٹر پسندوں کے اثر کو قبول کرتے رہے جس کے نتیجہ میں انہیںسیاسی میدان میں خود اپنی پارٹی کی تقریبا پچیس سال سے حلیف رہی بی جے پی کے مقابلہ میں منہ کی کھانی پڑی ہے ۔
بی جے پی نے ریاست میں حکومت قائم کرنے کے بعد بھی شیوسینا کو رجھانے اور منانے کی کوششیں جاری رکھی تھیں۔ یہ اس کے استحکام کیلئے ضروری تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی رہی ہے لیکن بی جے پی کے سامنے حکومت کے استحکام کے علاوہ شیوسینا کے اثر کو زائل کرنا بھی تھا ۔ بی جے پی اس طرح سے ریاست میں شیوسینا کی چھاپ کو کم کرتے ہوئے اپنی سیاسی بالا دستی کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ اس حکمت عملی اور سیاسی منصوبہ کو ادھو ٹھاکرے سمجھ نہیں پائے اور وہ اپنے ہی زعم میں رہے جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا ہے ۔ گذشتہ چھ ماہ کے سیاسی اتھل پتھل کے دور میں بی جے پی نے ادھو کی ناتجربہ کاری اور کم فہمی کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے ریاست کی سیاست میں اپنی بالادستی کو ثابت کردیا ہے اور شیوسینا کو حالانکہ اب فرنویس حکومت میں اپنی حصہ داری تو مل گئی ہے لیکن اس کیلئے پارٹی کو اپنی سیاسی ساکھ قربان کرنی پڑی ہے ۔