مہاراشٹرا میں سینا ۔ بی جے پی تعلقات

یہ جانتے ہیں کہ تیری فطرت وفاسے ناآشنا ہے پھر بھی
تری طرف سے لگائے رہتے ہیں اپنے دل کو تسلیوں میں
مہاراشٹرا میں سینا ۔ بی جے پی تعلقات
ملک کی دو اہم ریاستوں مہاراشٹرا اور ہریانہ میں آئندہ مہینے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے اور 15 اکٹوبر کو وہاں ووٹ ڈالے جانے ہیں۔ شیڈول کے اعلان سے قبل اور بعد میں بھی دونوں ریاستوں میں انتخابی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور تمام جماعتیں خود کو عوام کا سامنا کرنے کیلئے تیار کر رہی ہیں۔ مہاراشٹرا کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے کیونکہ یہاں حلیف جماعتوں کا دور ہے ۔ ریاست میں کانگریس ۔ این سی پی کے مابین گذشتہ تین معیادوں سے اتحاد ہے اور وہاں اسی اتحاد نے تین معیاد تک حکومت کی ہے اور اب وہ چوتھی معیاد کیلئے عوام سے رجوع ہونا چاہتے ہیں۔ ہر مرتبہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے مابین مفاہمت اور نشستوں کی تقسیم پر اتحاد ہوتا ہے اور ہر جماعت کچھ نہ کچھ ناراضگی کا شکار بھی ہوتی ہے ۔ کسی جماعت کو زیادہ نشستیں ملنے کی خوشی ہوتی ہے تو کسی جماعت کو کم نشستیں ملنے کی شکایت ہوتی ہے ۔ یہ صورتحال تقریبا ہر ریاست میں اور ہر اتحاد میں ہوتی ہے لیکن اس بار مہاراشٹرا میں اقتدار کی دعویداری پر دو قدیم حلیف جماعتوں میں اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ شیوسینا اور بی جے پی اتحاد اس بار مہاراشٹرا میں عوام کی تائید سے اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کانگریس ۔ این سی پی کی تین معیاد تک حکمرانی کے بعد وہاں اس بار اس اتحاد کو اقتدار ملنے کا یقین ہوچکا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ریاست میں نشستوں کی تقسیم کے علاوہ انتخابات کے بعد حکومت کی قیادت کے مسئلہ پر ابھی سے دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ اسے آئندہ حکومت کی تشکیل کا موقع دیا جائے ۔ شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے اعلان کردیا ہے کہ آئندہ حکومت کی قیادت کرنے والا چہرہ شیوسینا سے ہوگا ۔ اب بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ مہاراشٹرا میں آئندہ حکومت بی جے پی کی ہوگی ۔ دونوں جماعتیں اقتدار کی قیادت کے مسئلہ پر سخت رویہ رکھتی ہیں اور کوئی بھی نرمی پیدا کرنے کو تیار نظر نہیں آتی۔ یہ جماعتیں شائد یہ فرض کرچکی ہیں کہ اس بار مہاراشٹرا میں انہیں اقتدار یقینی طور پر حاصل ہوگا ۔
مہاراشٹرا کی جو سیاسی صورتحال گذشتہ کئی دہوں سے رہی ہے وہاں یہ تقریبا طئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک جماعت کو اقتدار حاصل نہیں ہوگا ۔ نہ کانگریس وہاں اپنے طور پر اقتدار حاصل کرسکتی ہے اور نہ وہ این سی پی سے اتحاد کو ختم کرسکتی ہے ۔ اسی طرح بی جے پی اور شیوسینا اتحاد بھی وہاں ایک دوسرے کیلئے اہمیت کا حامل ہے ۔ ایسے میں راج ٹھاکرے کی قیادت والی مہاراشٹرا نو نرمان سینا درمیان میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں جٹی ہوئی ہے ۔ ایم این ایس کے علاوہ آر پی آئی اور سماجوادی پارٹی کی موجودگی سے دونوں ہی اتحادوں کو اپنے اپنے ووٹوں کی تقسیم کا اندیشہ بھی ہمیشہ لاحق رہتا ہے ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہر جماعت اپنی حلیف جماعت سے اپنے اتحاد کو کس بھی قیمت پر برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ ایسے میں ادھو ٹھاکرے مہاراشٹرا کے چیف منسٹر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ اس بار انتخابات میں انہیں جو امکان نظر آتا ہے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے ۔ اسی طرح بی جے پی کے ارادوں میں بھی کسی طرح لچک دکھائی نہیں دیتی اور اقتدار اور کرسی کی ہوس کے نتیجہ میں اس اتحاد کے مابین اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں اور دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو اپنی اپنی حدود میں رہ کر اور عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر مہاراشٹرا کی سیاسی صورتحال اتحادی سیاست کی متقاضی نہ ہوتی تو یہ دونوں جماعتیں اپنے اپنے طور پر مقابلہ کا اعلان کردیتیں۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد شیوسینا کے عزائم اور بھی واضح ہوگئے ہیں اور وہ بی جے پی کو مشورہ دینے لگی ہے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھے اور اتحادی حکومت کی قیادت کے مسئلہ پر ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار نہ کرے ۔ بی جے پی صدر امیت شاہ تاہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ مہاراشٹرا میں اس بار بی جے پی حکومت کی قائم ہوگی ۔ ایسے میں یہ صورتحال ایسی ہے جس سے کانگریس اور این سی پی اتحاد فائدہ حاصل کرسکتا ہے اور اسے اس سلسلہ میں کوشش بھی کرنی چاہئے ۔ شیوسینا اور بی جے پی نے انتخابات میں مقابلہ سے قبل ہی یہ واضح کردیا ہے کہ انہیں عوامی مسائل کی یکسوئی یا عوام کو درپیش چیلنجس کو دور کرنے سے زیادہ اپنے لئے اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کی اہمیت ہے ۔ انہوں نے اپنے انتخابی منشور پر توجہ دینے کی بجائے کرسی کے حصول پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور اس سے مہاراشٹرا کے عوام کو یہ پیام لینا چاہئے کہ وہ اقتدار کی طلب رکھنے والوں کو خود پر مسلط کرنے کی بجائے سکیولر اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے اتحاد کو ترجیح دیں۔