کرم ہوا ہے جو اک شخص پر ترا ہمدم
نہیں ہے نظر کرم ہم پہ کیوں وجہ کیا ہے؟
مہاراشٹرا میں برقی شرحوں میں کمی
ایسا لگتا ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی اور اس کے بعد وہاں اروند کجریوال حکومت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کا اب سارے ملک پر اثر ہونے لگا ہے ۔ اسمبلی انتخابات میں کامیابی اور حکومت کی تشکیل کے بعد عام آدمی پارٹی کی مقبولیت کی حدوں میں جو اضافہ ہوا ہے اور ہندوستان بھر میں اس کی رکنیت سازی مہم میں عوام جس طرح سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اس سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں ہلچل مچ گئی ہے ۔ بی جے پی اور اس کے وزارت عظمی امیدوار نریندر مودی ‘ جو اب تک آئندہ انتخابات میں کامیابی کو یقینی سمجھتے رہے تھے ‘ اب عام آدمی پارٹی کے اثرات سے متفکر نظر آنے لگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین اب کانگریس اورراہول گاندھی سے زیادہ عام آدمی پارٹی اور اروند کجریوال کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ سینئر لیڈر ارون جیٹلی تو محض عام آدمی پارٹی کی مقبولیت کو کم کرنے کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔ کانگریس اور دوسری جماعتیں بھی اس کے اثر سے محفوظ نہیں ہے اور یہ جماعتیں بھی کجریوال اور ان کے ساتھیوں کے تعلق سے غیرشائستہ ریمارکس کر رہے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں حکومتیں بھی عام آدمی پارٹی سے سبق لینے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ نظر آتی ہے جب مہاراشٹرا میں کانگریس ۔ این سی پی حکومت نے برقی شرحوں میں 15 تا 20 فیصد کی کٹوتی ساری ریاست کیلئے کردی ہے تاہم ممبئی کو اس سے علیحدہ رکھا گیا ہے ۔ مہاراشٹرا کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے اور اس کٹوتی سے زرعی شعبہ ‘ گھریلو صارفین اور صنعتی حلقے سبھی مستفید ہونگے ۔ اس سلسلہ میں مہاراشٹرا کے مختلف کانگریس قائدین کی جانب سے مسلسل مطالبہ کیا جارہا تھا کہ برقی شرحوں میں کٹوتی کی جائے ۔ کانگریس ایم پی سنجے نروپم نے تو برقی شرحوں میں کٹوتی نہ کرنے پر خود کانگریس حکومت کے خلاف دھرنا منظم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پارٹی کی ایک اور ایم پی پریہ دت نے بھی اس کٹوتی کی سفارش کی تھی ۔ جبکہ مرکزی وزیر مسٹر ملند دیورا نے کل ہی حکومت مہاراشٹرا سے مطالبہ کیا تھا کہ برقی شرحوں پر وائیٹ پیپر جاری کیا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ حکومت کی جانب سے کتنی سبسڈی دی جا رہی ہے ۔ اب حکومت نے تمام حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے برقی شرحوں میں 20 فیصد تک کٹوتی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اس تجویز کو ریاستی کابینہ نے اپنے اجلاس میںمنظوری دیدی ہے ۔
یہ شائد پہلا موقع ہے کہ برقی کی شرحوں میں کٹوتی کی جانے لگی ہے ۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے کارروائی کی ۔ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد دہلی میں برقی شرحوں میں 50 فیصد تک کٹوتی کردی ہے ۔ حالانکہ اس کٹوتی کی وجہ سے سبسڈی کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے لیکن مسٹر کجریوال نے برقی کمپنیوں کی آڈیٹنگ کرتے ہوئے برقی شرحوں کے ڈھانچہ میں مزید تبدیلیوں کا بھی اشارہ دیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں بھی کابینہ نے آج جس کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے وہ بھی سبسڈی کے بل میں اضافہ کا موجب ہوگا ۔ ریاست کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام کے نتیجہ میں سرکاری خزانہ پر سالانہ 7000 کروڑ روپئے کا اضافی بوجھ عائد ہوگا ۔ جہاں تک دہلی کی بات ہے وہاں 200 کروڑ روپئے کی سبسڈی بڑھی تھی اور اروند کجریوال کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی اور وزرا کی سکیوریٹی کے اخراجات کو ختم کردیا ہے اور جو رقم سکیوریٹی کے امور پر خرچ کی جاتی تھی اس رقم کو اب عوام کو کم قیمت پر برقی سربراہ کرنے پر خرچ کی جاسکتی ہے ۔ ان کا یہ جواز قابل قبول ہوسکتا ہے ۔ جس وقت اروند کجریوال نے برقی شرحوں میں کٹوتی کا اعلان کیا تھا اسی وقت تجزیہ نگاروں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ اب ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی اس طرح کی کارروائی کی جاسکتی ہے اور کچھ ریاستیں سیاسی ضروریات کے تحت ایسا کرنے پر مجبور ہوجائیں گی ۔ دہلی کے بعد مہاراشٹرا نے اس معاملہ میں سبقت حاصل کرلی ہے اور یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے مزید ریاستوں میں بھی برقی شرحوں میں معمولی حد تک کمی ضرور ہوسکتی ہے ۔
بعض گوشوں کی جانب سے اس کٹوتی کو عام آدمی پارٹی کی مقبولیت کا اثر کہا جا رہا ہے اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ ہندوستان میں کسی شئے کی قیمت میں ایک مرتبہ اضافہ ہوجائے تو پھر اس میں کسی کٹوتی یا کمی کی امید نہیں کی جاسکتی تھی لیکن عام آدمی پارٹی نے جس طرح سے اس کی مثال پیش کی اور عملی طور پر اس کا ثبوت فراہم کردیا اس نے سارے ملک کے عوام میں ایک طرح کا جوش و خروش پیدا کردیا تھا ۔ انہو ںنے عوام کو یہ تاثر دیاتھا کہ حکومتیں عوام پر حکمرانی کرنے کیلئے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کرنے اور انہیں سہولیات و مراعات فراہم کرنے کیلئے ہوتی ہیں۔ اس تاثر کو ہندوستانی عوام نے بڑی حد تک قبول کیا ہے اور پارٹی کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اسی کو دیکھتے ہوئے دوسری ریاستوں میں بھی حکومتیں اس اقدام کی نقل کرنے پر مجبور ہیں اور مہاراشٹرا حکومت نے زیادہ دیر ہونے سے قبل ہی یہ فیصلہ کرلیا ہے ۔ اب دوسری ریاستوں میں بھی اسی طرح کے اقدامات ہوسکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کے عوام خود اس طرح کے اقدامات کیلئے حکومتوں کو مجبور کردیں۔ کئی ریاستوں میں اس طرح کے مطالبات عوامی اور سیاسی سطح پر ہونے پہلے ہی شروع ہوچکے ہیں۔