اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جس کو دیکھو اس کا دامن بھیگا لگتا ہے
مہاراشٹرا انتخابات ‘ بے سمت مہم
ملک کی دوسری بڑی ریاست مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کیلئے انتخابی مہم اپنے عروج پر پہونچ چکی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کے اعلی قائدین انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی مہاراشٹرا میں انتخابی ریلیوں سے مسلسل خطاب کر رہے ہیں۔ شیوسینا اپنے انداز میں مہم چلا رہی ہے ۔ کانگریس کی انتخابی مہم کا اپنا انداز الگ ہے لیکن اس میں جوش و جذبہ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ این سی پی کا موقف مبہم کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے قائدین انتخابی مہم کے دوران کوئی واضح ایجنڈہ یا نکتہ پیش کرنے کی بجائے سیاسی صف بندیوں کے امکانات کو برقرار رکھنے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ ایسے میں مہاراشٹرا میں انتخابی مہم شدت تو اختیار کرچکی ہے لیکن اس کی کوئی سمت نظر نہیں آتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار انتخابات میں عوام کو اور ریاست کو درپیش مسائل اور چیلنجس کہیں پس پشت چلے گئے ہیں۔ ان کی جگہ سیاسی جماعتوں کی آپسی رنجشوں نے لے لی ہے ۔ ریاست میں شیوسینا ۔ بی جے پی اور کانگریس ۔ این سی پی اتحاد ٹوٹ چکے ہیں ۔ دونوں اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے اپنے طور پر انتخابات میں مقابلہ کر رہی ہیں۔ تنہا مقابلہ کرتے ہوئے یہ جماعتیں اپنی سابقہ حلیفوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ حالانکہ کانگریس ۔ این سی پی کے مابین بھی ایک دوسرے پر الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ چل رہا ہے لیکن جو شدت بی جے پی ۔ این سی پی کے مابین لفظی تکرار میں ہے وہ دوسروں میں دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ ہندوتوا کے ایجنڈہ پر ایک دوسرے سے پچیس سال تک تعلقات رکھنے کے بعد یہ دونوں جماعتیں اقتدار کی ہوس میں اتحاد توڑ چکی ہیں۔ شیوسینا کا اصرار ہے کہ وہ ریاست میں سینئر پارٹنر ہے اور اسے اتحاد کی قیادت کرنی چاہئے جبکہ بی جے پی کو امید ہے کہ وہ نریندر مودی کی لہر کے نام پر ریاست میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی ۔ اسی وجہ سے دونوںجماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ لچکدار رویہ اختیار کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ جب باہمی رنجشیں عود کر آئیں تو ان جماعتوں کو عوام اور ریاست کو درپیش مسائل سے کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی اور وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئی ہیں ۔
شیوسینا مہاراشٹرا میں شیواجی کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور بی جے پی قائدین کو افضل خان سے تشبیہہ دی جا رہی ہے ۔ افضل خان وہ سالار تھے جن کی افواج کا شیواجی کی فوج سے مقابلہ ہوا تھا ۔ بی جے پی نے بھی اپنے طور پر شیواجی کا نام استعمال کرنا شروع کردیا ہے جس پر شیوسینا بھڑک اٹھی ہے ۔ ا س کا کہنا ہے کہ بی جے پی ایسی جماعت ہے جس نے اب تک شیواجی کا یوم پیدائش تک نہیں منایا ہے اور اب وہ ان کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ شیوسینا کو ریاست میں نریندر مودی کے انتخابی جلسوں پر بھی اعتراض ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر واقعی مودی کے حق میں لہر ہوتی تو انہیں اتنے زیادہ جلسوں سے مہاراشٹرا میں خطاب کی ضرورت نہیں تھی ۔ در اصل بی جے پی خوفزدہ ہے کہ اسے یہاں بھی شکست ہوگی ۔ بی جے پی تاہم اپنے اس یقین کے سہارے مہم چلا رہی ہے کہ اسے مودی کی مقبولیت سے فائدہ ہوگا اور وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی ۔ چار رخی مقابلہ کو دیکھتے ہوئے یہ بات زیادہ ممکن معلوم ہوتی ہے کہ یہاں معلق اسمبلی وجود میں آئیگی اور کوئی واحد جماعت ریاست میں حکومت تشکیل دینے کے موقف میں نہیں رہے گی ۔ جب معلق اسمبلی وجود میں آئیگی تو سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر ایک دوسرے سے رابطے بنانے پڑیں گے اور اتحاد کرنا پڑیگا ۔ یہ ایسا امکان ہے کہ جو این سی پی سربراہ شرد پوار کیلئے فی الحال سیاسی سہارا بنا ہوا ہے ۔
معلق اسمبلی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے شرد پوار کی قیادت والی این سی پی نے اپنے موقف کو مبہم اور لچکدار بنائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ اس نے مہم کے دوران کسی بھی پارٹی کو اس حد تک تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ہے جس کے نتیجہ میں انتخابات کے بعد صف بندیوں کے امکانات متاثر ہونے پائیں۔ کانگریس کارکنوںاور کیڈر میں روایتی جوش و خروش کا فقدان ہے لیکن اس کے حلقوں میں انتخابات کے بعد پارٹی کی بنیادوں کو مستحکم رکھنے کی فکر ابھی سے پائی جاتی ہے ۔ این سی پی سربراہ شرد پوار چاہتے ہیں کہ انتخابات کے توڑ جوڑ اور حکومت سازی کیلئے چند ارکان کی تائید فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اقتدار کے گلیاروں میں اپنے لئے کوئی راستہ برقرار رکھا جائے ۔ ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹرا کے اسمبلی انتخابات حالانکہ ریاست کے عوام کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کیلئے یہ جمہوری عمل صرف اپنی سیاسی بقا کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں اور یہ پارلیمانی جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔