آشیانے پر مرے وہ بجلیاں ڈھاتے رہے
میرے آنگن سے درختوں کے نشاں جاتے رہے
مہاراشٹرا ، تحفظات میں امتیاز
مہاراشٹرا اسمبلی میں مراٹھا برادری کو تحفظات فراہم کرنے کا بل پیش کردیا گیا اور اس بل کو مہاراشٹرا قانون ساز کونسل میں بھی پیش کیا جانے والا ہے ۔ اس بل کے ذریعہ مہاراشٹرا میں مراٹھا عوام کو روزگار ‘ تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں تحفظات فراہم کرنے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ تاہم اس بل کو پیش کرتے وقت مسلمانوں کیلئے تحفظات کی فراہمی کو یقینی بنانے علیحدہ بل پیش نہیں کیا گیا اور نہ موجودہ بل میں اس کو شامل کیا گیا ہے ۔ واضح رہے کہ مہاراشٹرا میں سابقہ کانگریس ۔ این سی پی حکومت نے مراٹھا برادری کے ساتھ مسلمانوں کو بھی پانچ فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلہ میں ایک آرڈیننس جاری کیا گیا تھا ۔ آرڈیننس کے ذریعہ مسلمانوں کو بھی تعلیمی و معاشی میدان میں مستحکم بنانے روزگار اور تعلیم کے میدان میں تحفظات فراہم کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی ۔ تاہم حکومت کے اس آرڈیننس کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا اور عدالت نے تحفظات کی فراہمی کے خلاف رائے دی تھی ۔ عدالت نے ملازمتوں میں پانچ فیصد تحفظات کی فراہمی کے خلاف عارضی حکم التوا جاری کیا تھا جس کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں ہائیکورٹ کے احکام میں کسی طرح کی مداخلت سے انکار کردیا تھا ۔ اب سابقہ این سی پی ۔ کانگریس حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدت ختم ہونے والی تھی اور عدالتی فیصلہ اس کے بعد تحفظات کے حق میں بھی آجاتا تو اس پر عمل آوری مشکل ہوجاتی ۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مہاراشٹرا میں قائم بی جے پی ۔ شیوسینا حکومت نے تحفظات کے مسئلہ کو پھر ایک بار پھر سیاسی اور فرقہ واری رنگ دیتے ہوئے اب علیحدہ بل اسمبلی میں پیش کردیا ہے اور اس بل میں صرف اور صرف مراٹھا عوام کو تحفظات فراہم کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ مہاراشٹرا ایسی ریاست ہے جہاں مراٹھا برادری کو سیاسی اور سماجی غلبہ حاصل ہے اور اس نے تحفظات کے بل سے مسلمانوں کو نکال باہر کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ ویسے بھی بی جے پی کسی بھی قیمت پر ملک کے مسلمانوں کو تحفظات راہم کرنے کی ہمیشہ ہی شدت سے مخالفت کرتی آئی ہے ۔
انتخابات میں کانگریس ۔ این سی پی کو شکست اور بی جے پی ۔ شیوسینا حکومت کی تشکیل کے بعد یہ اندیشے ظاہر کئے ہی جارہے تھے کہ تحفظات کے نام پر سیاست کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس کے ثمرات سے محروم کرنے کی کوشش کی جائیگی ۔ تحفظات کیلئے سابقہ مہاراشٹرا حکومت کی جانب سے آرڈیننس کی اجرائی کے وقت ہی شیوسینا اور بی جے پی دونوں نے اس کی مخالفت کی تھی ۔ ان جماعتوں نے اقتدار ملنے کے بعد اپنے اس موقف کو مزید واضح کرتے ہوئے اب تو قانون سازی کی راہ اختیا رکرتے ہوئے مراٹھا عوام کو تحفظات فراہم کئے جا رہے ہیں لیکن مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم کیا جارہا ہے ۔ حسب روایت یہی بودی دلیل دی جا رہی ہے کہ مذہب کے نام پر تحفظات نہیں دئے جاسکتے لیکن یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اب تک آزاد ہندوستان کی تاریخ میں جتنے بھی تحفظات دئے گئے ہیں وہ سب مذہب کے نام پر ہی دئے گئے ہیں ۔ آج تک ہندوستان میں تحفظات کے ثمرات سے صرف اور صرف ہندو برادری کے لوگ ہی مستفید ہوتے آئے ہیں اور کسی بھی دوسرے مذہب کے ماننے والے اور خاص طور پر مسلمانوں کو تحفظات سے ایک منظم سازش کے تحت محروم کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اب تک بھی جا ری ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو ذات پات ‘ معاشی پسماندگی اور تعلیمی وسماجی پستی کے نام پر تحفظات فراہم کئے گئے ہیں اور اگر کوئی ان سے محروم ہے تو وہ اس ملک کے مسلمان ہیں جن کی تعلیمی ‘ معاشی اور سماجی حالت دوسرے تمام طبقات سے ابتر ہوگئی ہے ۔
مہاراشٹرا حکومت کا مسلمانوں کیلئے تحفظات سے گریز کرنا اس کی فرقہ پرستانہ ذہنیت کا ایک اور واضح ثبوت ہے ۔ اس کا یہ استدلال قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ مسلم تحفظات پر ایڈوکیٹ جنرل سے مشاورت کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائیگا ۔ ریاست کے وزیر تعلیم کا ادعا ہے کہ چونکہ عدالت نے مسلمانوں کو ملازمتوں میں تحفظات کی مخالفت کی ہے اس لئے حکومت اس کیلئے بل پیش نہیں کرسکتی ۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسمبلیوں میں قانون سازی یا بل کی منظوری میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہوتی ۔ حکومت کو محض حیلے بہانوں سے کام لینے کی بجائے پوری دیانتداری اور سماجی انصاف کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کیلئے بھی تحفظات کی فراہمی کیلئے قانون سازی کرنی چاہئے اور کسی طرح کے امتیاز سے گریز کرنا چاہئے ۔