حیدرآباد۔/28مارچ، ( سیاست نیوز) مکہ مکرمہ میں حیدرآبادی رباط میں قیام سے متعلق تعطل کے خاتمہ کیلئے تلنگانہ حکومت نے فریقین کے ساتھ مشاورت کا آغاز کیا ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے آج اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کی موجودگی میں اوقاف کمیٹی ایچ ای ایچ دی نظام کے عہدیداروں سے بات چیت کی۔ اجلاس میں طئے کیا گیا کہ اوقاف کمیٹی اور ناظر رباط کی جانب سے رباط میں قیام کے سلسلہ میں وصول کی جارہی درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے حیدرآباد میں قرعہ اندازی کی جائے گی۔ اوقاف کمیٹی کے عہدیداروں نے حکومت کی اس تجویز سے اتفاق کیا تاہم اس مسئلہ پر ڈپٹی چیف منسٹر بہت جلد ناظر رباط حسین محمد شریف سے بات چیت کریں گے۔ حکومت اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ ناظر رباط اور جدہ میں ہندوستانی کونسل جنرل کو حیدرآباد مدعو کرتے ہوئے ان کی موجودگی میں رباط کیلئے قرعہ اندازی کی جائے۔ اجلاس میں اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل، ڈائرکٹر اقلیتی بہبود محمد جلال الدین اکبر، اسپیشل آفیسر حج کمیٹی پروفیسر ایس اے شکور،اوقاف کمیٹی کے سکریٹری محمد قاسم رضا اور ٹرسٹی فیض احمد نے شرکت کی۔ واضح رہے کہ رباط میں قیام کے مسئلہ پر دونوں فریقین کی جانب سے درخواستوں کی طلبی کے سبب عازمین حج میں اُلجھن کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ ناظر رباط اور اوقاف کمیٹی نے اپنی ویب سائیٹ پر علحدہ علحدہ درخواستیں طلب کی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ تلنگانہ حکومت رباط میں قیام کی اجازت سے متعلق تصریح کے حصول کیلئے سعودی حکومت سے نمائندگی کرے گی۔ پیر لو چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کا مکتوب کونسل جنرل جدہ اور سعودی حکومت کو روانہ کیا جائیگا۔ رباط میں قیام کے سلسلہ میں تعطل کے خاتمہ کیلئے حکومت کے پاس وقت کافی کم ہے۔ اگر جون تک فریقین کسی مسئلہ پر متفق نہ ہوں تو بلڈنگ سلیکشن کمیٹی تمام عازمین کے قیام کیلئے عمارتوں کا انتخاب مکمل کرلے گی۔ کمیٹی کی جانب سے عمارتوں کے انتخاب کی تکمیل کے بعد رباط میں قیام کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی اور قیام کے باوجود عازمین کو رقم واپس نہیں کی جائے گی۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تلنگانہ حکومت نے مساعی کو تیز کردیا ہے۔ موجودہ رباط میں 264افراد کے قیام کی گنجائش ہے تاہم ناظر رباط نے مزید دو عمارتیں حاصل کرکے 600 عازمین کے قیام کو یقینی بنانے کا تیقن دیا ہے۔ بلڈنگ میں قیام کی اجازت سے متعلق تصریح سعودی حکومت کے مقامی بلدیہ کی جانب سے جاری کی جاتی ہے جو عمارت کی گنجائش اور وہاں موجود سہولتوں اور شرائط کی تکمیل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تنازعہ کی یکسوئی کی صورت میں جاریہ سال عازمین اس عمارت میں قیام کرپائیں گے جبکہ آئندہ سال یہ عمارت توسیع حرم کے سلسلہ میں منہدم ہوسکتی ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے اقلیتی بہبود کے عہدیداروں اور اوقاف کمیٹی کو اس بات پر راضی کرلیا کہ دونوں کی درخواستوں کی قرعہ اندازی حکومت کی جانب سے انجام دی جائے تاہم اس سلسلہ میں ناظر رباط کا متفق ہونا ضروری ہے۔ سنٹرل حج کمیٹی کی بلڈنگ سلیکشن کمیٹی اپریل سے عمارتوں کے انتخاب کا عمل شروع کرتی ہے جسے دو ماہ میں مکمل کیا جاتا ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے رباط میں قیام سے متعلق تصریح کی اجرائی کے بعد سنٹرل حج کمیٹی اوقاف کمیٹی کے نام پر تصریح جاری کرتی ہے۔ عازمین کو تصریح کی اجرائی کے بعد رقم واپس مل سکتی ہے۔ گزشتہ مرتبہ فی عازم 38ہزار روپئے کی بچت ہوئی تھی۔ تنازعہ کے سبب گزشتہ دو سال سے عازمین رباط میں قیام سے محروم ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تلنگانہ حکومت رباط میں صرف تلنگانہ کے عازمین کے قیام کی اجازت دینے کے حق میں ہے جبکہ ناظر رباط اور اوقاف کمیٹی نے سابق نظام اسٹیٹ کے تحت کرناٹک اور مہاراشٹرا کے اُن اضلاع کے عازمین کو بھی قیام کا اہل قرار دیا ہے جو سابق نظام اسٹیٹ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اوقاف کمیٹی خانوادہ شاہی، اعلیٰ عہدیداران سرکاری دفاتر صاحبزادہ صرفخاص ٹرسٹ اور اُمور مذہبی ٹرسٹ و اوقافی کمیٹی کے موجودہ و سابقہ ملازمین کیلئے 10 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کے حق میں ہے ۔ اس مسئلہ پر بھی فریقین میں اتفاق رائے پیدا ہونا آسان نہیں ۔