مچھلی کمان اور گلزار حوض کے درمیان تاریخی عمارت کا وجود خطرہ میں !

حیدرآباد ۔ 12 ۔ نومبر : ہندوستان میں حیدرآباد کی پتھر گٹی کا شمار قدیم اور فن تعمیر کی شاہکار مارکٹوں میں ہوتا ہے ۔ پتھر گٹی کی قدیم تصاویر کو دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ ہمارے ملک میں شائد اتنی خوبصورت مارکٹ کوئی ہو ۔ 1907 میں تعمیر کردہ اس مارکٹ کی کمانیں ، ستون ، روشندان غرض مارکٹ کے در و دیوار سب کچھ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اگرچہ اس مارکٹ کو دکانات کے جنگل نے چھپا دیا ہے ۔ اس کے باوجود سیاحوں کی نظر اس تاریخی عمارت پر پڑ ہی جاتی ہے جسے دیکھ کر وہ حیدرآباد دکن کی خوشحالی کا تصور کرنے لگتے ہیں ۔ قارئین ! قطب شاہی حکمرانوں نے حیدرآباد کو بسایا ۔ اسے مسجدوں میناروں اور باغات سے سجایا سنوارا ، جب کہ آصف جاہی حکمرانوں نے قطب شاہی حکمرانوں کے لگائے گئے اس پودے کی پوری تندہی سے آبیاری کرتے ہوئے اسے نہ صرف ایک مضبوط درخت میں تبدیل کیا بلکہ اس کے اطراف کئی خوبصورت محلات اور پتھر گٹی جیسی عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے اسے تاریخی عمارتوں کے حسین باغ میں تبدیل کردیا ۔ جہاں تک پتھر گٹی کا سوال ہے پتھر گٹی کے ذکر کے ساتھ ہی لوگ کرشنا ٹاکیز کا حوالہ دیتے ہیں حالانکہ یہ ٹاکیز پتھر گٹی کی تعمیر کے 53 سال بعد وجود میں آئی ۔ کچھ دہے قبل تک بھی یہ شہر اور مضافاتی علاقوں کی واحد ٹاکیز تھی جہاں سنیما بینوں کا ہجوم رہا کرتا تھا ۔ لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اب اس کرشنا ٹاکیز کو اس کے مالکین نے فروخت کردیا ہے ۔ باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تاریخی عمارت یعنی پتھر گٹی و مچھلی کمان اور گلزار حوض کے درمیانی حصہ میں واقع جائیداد کو شہر کے ایک رئیل اسٹیٹ تاجر نے خریدا اور حسب عادت اسے دوسرے فریق کو فروخت کردیا ۔ اور اب وہاں راتوں کے اوقات میں کمرشیل کامپلکس کی تعمیر کے لیے کھدائی جارہی ہے ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے مالکین نے اس ٹاکیز کی ملگیات کے کرایہ داروں کو بتادیا ہے کہ ان لوگوں نے ملگیات سمیت ساری عمارت خرید لی ہے ۔ جب کہ ملگیات کے کرایہ دار بڑی بے فکری سے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں ۔ اطراف و اکناف کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کرایہ دار اس لیے بے فکر ہیں کیوں کہ وہ لوگ 60 تا 80 برسوں سے ان ملگیات میں کاروبار کررہے ہیں ۔ اس جائیداد کی خریدی کے بارے میں ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرشنا ٹاکیز کسی رئیس کی جائیداد تھی ۔ اس کی خریداری کرنے والا رئیل اسٹیٹ تاجر شہر میں کئی اسکولس اور پٹرول پمپس بھی چلاتا ہے ۔ عوام کو اس جائیداد کی خرید و فروخت کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ لیکن وہ اس بات پر حیران ہیں کہ تاریخی عمارت سے متصل تعمیری کام شروع کرنے کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ اور بلدیہ کے عہدیدار آخر کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ؟ جب کہ محکمہ آثار قدیمہ کے قانون (1) 30 کے تحت کسی بھی تاریخی عمارت کے 100 میٹر کے فاصلہ پر تعمیری کام کے مرتکب افراد کو ایک لاکھ روپئے جرمانہ اور دو سال کی سزا ہوسکتی ہے لیکن اس معاملہ میں کسی قانون کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی بلکہ رات کے اوقات میں سیلر کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے ۔ اس بات کا بھی پتہ چلا ہے کہ ملگیات کے کرایہ داروں کو خصوصی رعایت پر اندرونی حصوں میں ملگیاں فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی تاکہ سامنے کے حصہ میں جو ملگیات ہیں اسے منہدم کر کے تجارتی کامپلکس کا باب الداخلہ بنایا جائے ۔ اس تعمیر کے خلاف تاریخی آثار و عمارت کے تحفظ میں مصروف شخصیتیں محکمہ آثار قدیمہ ، انٹاک نئی دہلی وزارت سماجی انصاف ، کمشنر پولیس حیدرآباد اور کمشنر جی ایچ ایم سی کو توجہ دلا رہے ہیں ۔ ان شخصیتوں کا الزام ہے کہ اس معاملے میں سرکاری حکام کی خاموشی اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ وہ تاریخی عمارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں سے سازباز کرچکے ہیں ۔ راقم الحروف بھی پتھر گٹی کی قدیم تصاویر اور موجودہ حالت کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ آپ کو بتادیں کہ کرشنا ٹاکیز مچھلی کمان چارکمان اور چارمینار کے درمیان اور گلزار حوض کے بالکل قریب ہے جب کہ اس کے کچھ فاصلے پر کالی کمان اور کمان سحر باطل ہیں ۔ جہاں تک گلزار حوض کا سوال ہے چاروں کمانوں کے بیچوں بیچ واقع ہے اور ہر طرف سے ان سب کا فاصلہ 375 فٹ ہے جب کہ ان کمانوں کی ایک دوسرے سے دوری 750 فٹ بتائی جاتی ہے ۔ ہرکمان کی اونچائی 60 فٹ اور چوڑائی 36 فٹ ہے ۔ جب کہ چار سو کا حوض ، سو کا حوض اور پھر گلزار حوض کہلانے والے تاریخی حوض کو ان کمانوں کا مرکز کہا جاتا ہے اور اسی کے بازو کرشنا ٹاکیز واقع ہے جہاں اب مبینہ طور پر تعمیر کا سلسلہ جاری ہے ۔ بہر حال بلدیہ اور محکمہ آثار قدیمہ کیا اقدمات کرتے ہیں اس بارے میں بہت جلد سب کو معل