بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
موہن بھاگوت کے ریمارکس
ایسا لگتا ہے کہ ملک میںآئندہ لوک سبھا اور پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے قبل ملک میں ایک بار پھر نفرت اور اختلافات کا ماحول گرم کیا جا رہا ہے ۔ پہلے تو یہ کوششیں ایسے گوشوں کی جانب سے ہوتی تھیں جو محدود اثر والے ہوا کرتے تھے تاہم ان کے بیانات اور تبصروں کی خوب تشہیر کرتے ہوئے ماحول کو پراگندہ کیا جاتا تھا ۔ تاہم اب خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نفرت کا بازار گرم کرنے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں۔ انہوں نے ملک میں اپوزیشن کے اتحاد اور وزیراعظم نریندر مودی کے تعلق سے شکاگو میں جو تبصرہ کیا ہے وہ انتہائی مذموم ہے اور اس سے گریز کیا جانا چاہئے تھا ۔ آر ایس ایس سربراہ نے مودی کو ایک شیر اور اپوزیشن کے اتحاد کو جنگلی کتوں کے غول سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ ایک طرح سے عوام میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش ہے جس کے ذریعہ بی جے پی آئندہ لوک سبھا اور ڈسمبر تک ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ یہ اخلاقیات اور اقدار کی پامالی کی انتہاء ہے ۔ سیاسی میدان کو اس قدر پراگندہ کردیا گیا ہے کہ اس سے انتہائی نچلی سوچ والے بھی شرم محسوس کرنے لگے ہیں۔ سماج میں اعلی اقدار اور روایات کی بات کرنے والے موہن بھاگوت نے محض ہندو ووٹوںکو مجتمع اور متحد کرنے کے مقصد سے جو ریمارک کیا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور اس سے سنگھ پریوار کی ایک نچلی سوچ کا پتہ چلتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو راشٹرا کا خواب دیکھنے والے دراصل کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ وہ سماج میںاختلاف رائے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور جو کوئی ان کی رائے سے اختلاف کرے اس کے تعلق سے اس طرح کے نازیبا ریمارکس کرنا ان کا شیوہ بن گیا ہے ۔ ہندوستانی سماج میں روایات اور اقدار کا ایک خاص مقام ہوا کرتا تھا اور اس کی وجہ سے ہندوستان کو انفرادیت حاصل رہی ہے لیکن اس طرح کے ریمارکس اور تبصرے اس انفرادیت کو مسخ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی صدیوں قدیم روایات کو پامال کیا جارہا ہے اوراس کی دھجیاں اڑانے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔
ان ساری کوششوں کا مقصد صرف ایک سوچ کو سارے ملک پر مسلط کرنا ہے ۔ یہ سوچ اکثریت کے غلبہ والی سوچ ہے ۔ یہ سوچ سماج میں اختلاف رائے کا خاتمہ کرنے والی سوچ ہے ۔ یہ سوچ ہر ہندوستانی کو مساوی نہ سمجھنے والی سوچ ہے ۔ یہ نظریہ وہ ہے جس کے مطابق تمام ہندوستانی اور تمام انسان ایک رتبہ کے حامل نہیں ہوسکتے ۔ صرف ان حلقوں کی پذیرائی ہوگی جو ایک مخصوص نظریہ کی اور دوسروں کو نیچا دکھانے والی کوششوں کی حمایت کریں ۔ جو ان کی رائے سے اختلاف کریگا اس کو سماج میں رسوا کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی جائے گی ۔ ہندوستان کی روایات کا اس سے زیادہ برا حال اور کچھ نہیں ہوسکتا ۔ یہ ملک کی قدیم تہذیب کی دھجیاں اڑانے والا عمل ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر برسر اقتدار جماعت یا اس کے حواریوں کی جانب سے کوئی تنقیدی رد عمل ظاہر نہیںہوا ہے ۔ بی جے پی یا اس کے حواری تو ایسے ریمارکس کے منتظر ہوا کرتے ہیں تاکہ انہیں اس کا انتخابات میں فائدہ حاصل کرنے کا موقع مل سکے ۔ یہ لوگ ملک کی روایات اور اقدار کی فکر اور پرواہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انہیں صرف ایک مخصوص نظریہ کے تسلط سے مطلب رہ گیا ہے اور وہ اپنے ان ناپاک عزائم کی تکمیل میں جٹ گئے ہیں جن سے ملک کے مستقبل کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور ملک میں نراج اور بدامنی کو عروج حاصل ہوسکتا ہے ۔ ملک کی روایتی سماجی ہم آہنگی تار تار ہوسکتی ہے ۔
آر ایس ایس سربراہ ہندوستان میں تو اپنی تقاریر میں بڑے اصولوں کے پاسدار بننے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ بیرون ملک جا کر ہندوستان کی اپوزیشن کو جنگلی کتوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب بی جے پی یا اس کے حواری ہندوستان کے باہر جا کر ہندوستانیوں کی ہتک کرنے والے بھاگوت کے تعلق سے کچھ بھی کہنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان پر تنقید کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہو رہی ہے ۔ گذشتہ دنوں جب راہول گاندھی نے لندن میں ہندوستانی سیاست پر کوئی تبصرہ کیا تھا تو یہی بی جے پی قائدین تھے اور یہی حکومت کا زر خرید میڈیا تھا جس نے انہیں تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا ۔ نہ اب میڈیا کو ہندوستانی روایات کا خیال ہے اور نہ ہی بی جے پی والے ملک کے وقار پر توجہ دینے کو تیار ہیں۔ یہ انتہاء درجہ کے دوہرے معیارات اور ڈوغلا پن ہے ۔