موہن بھاگوت کی تقریر کا راست ٹیلی کاسٹ اکثریت پسندی کی مثال

نئی دہلی 3 اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام ) آر ایس ایس سربراہ موہن بھگوت کے دسہرہ کے موقع پر ناگپور میں خطاب کو دوردرشن سے راست ٹیلی کاسٹ کرنے کے فیصلے پر ایک تنازعہ پیدا ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر سرکاری میڈیا کے بیجا استعمال کا الزام عائد کیا ہے جبکہ بی جے پی نے اس اقدام کی مدافعت کی ہے ۔ کانگریس ترجمان سندیپ ڈکشت نے بھاگوت کے خطاب کے ٹیلی کاسٹ کو خطرناک روایت قرار دیا اور کہا کہ آر ایس ایس ایک متنازعہ مذہبی اور سیاسی تنظیم ہے ۔ انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔

یہ ایک ایسی تنظیم نہیں ہے جو پوری طرح غیر جانبدار ہو ۔ یہ ایک متنازعہ تنظیم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ فیصلہ سیاسی نوعیت کا ہے ۔ کانگریس کے ایک اور ترجمان ابھیشیک مانو سنگھوی نے اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ اب ملک پر سرکاری میڈیا کے ذریعہ ناگپور سے ‘ ناگپور کیلئے اور ناگپور کی حکمرانی رہے گی۔ ان کا اشارہ آر ایس ایس ہیڈ کوارٹرس کی سمت تھا ۔ اس واقعہ کو انتہائی بدبختانہ ‘ سرکاری میڈیا کے بہیمانہ اور بیجا استعمال سے تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی حیرت انگیز ناقابل یقین اور ایسا اقدام ہے جس کی پہلے سے کوئی مثال موجود نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس براڈ کاسٹ کے ذریعہ ایک بار پھر حقیقی کھیل منظر عام پر آگیا ہے اور حقیقی ریموٹ کنٹرول کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا ہے ۔ ایک اور کانگریس لیڈر راشد علوی نے کہا کہ یہ ننگی اکثریت کا کھیل ہے اور اس کو روکنے کی ضرورت ہے ۔

سابق مرکزی وزیر مسٹر سلمان خورشید نے کہا کہ ہم آر ایس ایس کے ریکارڈ کو اپنے قومی مفادات اور توقعات کے مطابق نہیں پاتے ۔ راست نشریہ پر تنقید کرتے ہوئے سی پی ایم نے کہا کہ آر ایس ایس نے اس موقع کا ہندوتوا کے پروپگنڈہ کیلئے استعمال کیا ہے ۔ قومی ٹی وی پر آر ایس ایس جیسی تنظیم کے سربراہ کی تقریر نشر کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ سی پی آئی نے بھی اس ٹیلی کاسٹ کی مذمت کی ہے اور پارٹی سکریٹری ڈی راجہ نے کہا کہ حکومت اور خاص طور پر وزارت اطلاعات و نشریات کو چاہئے کہ وہ عوام سے یہ وضاحت کرے کہ اس نے کیوں دور درشن کو آر ایس ایس کے ترجمان کا رول ادا کرنے کی اجازت دی گئی ۔ راجہ نے کہا کہ یہ ملک کے سکیولر اور جمہوری اقدار کو پامال کرنے کی کوشش ہے اور افسوس یہ بات ہے کہ یہ کام حکومت کی جانب سے کیا جارہا ہے ۔

جنتادل یو کے ترجمان کے سی تیاگی نے اس نشریہ کو سرکاری میڈیا کے بیجا استعمال سے تعبیر کیا اور کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کے ٹیلی کاسٹ کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس ایک مذہبی تنظیم ہے اور اس کے ریمارکس سے وقفہ وقفہ سے تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ مورخ اور تبصرہ نگار رامچندرا گوہا نے اسے ننگی سرکاری اکثریت پسندی سے تعبیر کیا ہے اور کہا کہ اس رجحان کو روکا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرکاری مشنری کا انتہائی خطرناک بیجا استعمال ہے ۔ آر ایس ایس ایک فرقہ پرست ہندو تنظیم ہے ۔ آئندہ اب مساجد کے امام اور چرچس کے پادری بھی راست نشریہ کی خواہش کرسکتے ہیں۔ بی جے پی ترجمان میناکشی لیکھی نے تاہم اس نشریہ کی مدافعت کی ہے اور انہوں نے کہا کہ عوام اس بات میں دلچسپی رکھتے تھے کہ بھاگوت کیا کہتے ہیں ۔ ان کی تقریر کی خبر بنتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پرسار بھارتی ایک آزاد تنظیم ہے اور اسے اپنی خبروں کے انتخاب کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔

آر ایس ایس سربراہ کی تقریر کا نشریہ خبر کی حیثیت سے : دوردرشن
نئی دہلی 3 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) دوردرشن پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی تقریر راست نشر کرنے پر تنازعہ اُٹھ کھڑا ہونے کے بعد دوردرشن نے آج کہاکہ اُس نے دیگر خبروں کی طرح اِس تقریر کا بھی احاطہ کیا ہے۔ اِس تقریر کے نشریہ کیلئے کوئی خصوصی انتظامات نہیں کئے گئے۔ یہ کسی بھی دوسری خبر کی طرح ایک خبر تھی۔ اِس لئے اِس کا بھی احاطہ کیا گیا۔ دوردرشن کی ڈائرکٹر جنرل (خبروں کے شعبہ) ارچنا دتہ نے کہاکہ آر ایس ایس کی تقریب کا ایک گھنٹہ طویل احاطہ دوردرشن کی جانب سے پہلی بار کیا گیا۔ اِس پر کانگریس اور بائیں بازو نے سخت اعتراض کرتے ہوئے حکومت پر الزام عائد کیاکہ سرکاری زیرانتظام دوردرشن کا حکومت غلط استعمال کررہی ہے۔ اِس پر وضاحت کرتے ہوئے ڈائرکٹر جنرل نے کہاکہ آر ایس ایس سربراہ کی تقریر کا راست نشریہ اُسی طرح کیا گیا ہے جیسا کہ کسی دوسری خبر کا کیا جاتا ہے۔