سید نصیر الدین احمد
صوفی شاعر مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ جلال الدین کے نام سے مشہور ہیں، لیکن ان کا اصلی نام محمد بن محمد حسین ہے۔ آپ کا وطن بلخ تھا، لیکن وہ روم میں جاکر بس گئے تھے، جو اس زمانہ میں ایشیائے کوچک کہلاتا تھا۔ مولانا روم ۶۰۴ھ میں پیدا ہوئے اور طویل عمر پائی۔ آپ بچپن سے لکھنے پڑھنے کے بہت شوقین تھے، اس لئے اتنا پڑھا لکھا کہ آپ کا شمار اپنے زمانہ کے مشہور عالموں میں ہونے لگا۔ بہت سے طالب علم آپ کے پاس حصول علم کے لئے آیا کرتے اور آپ طلبہ کے ساتھ بڑے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آتے اور آپ کے پڑھانے کا طریقہ بھی بہت اچھا تھا، اس لئے طلبہ اور لوگ آپ کے گرویدہ تھے۔
ایک روز آپ طلبہ کے ساتھ مدرسہ میں حوض کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور پاس ہی کچھ کتابیں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ ایک قلندر شخص آپ کے پاس آیا اور مولانا سے پوچھا: ’’یہ کونسی کتابیں ہیں؟‘‘۔ مولانا روم نے کہا: ’’یہ تم نہیں جانتے، اسے قیل و قال کہتے ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی اس قلندر نے وہ تمام کتابیں اُٹھاکر حوض میں ڈال دیں‘‘۔ مولانا روم کو بہت افسوس ہوا، لیکن آپ نے قلندر سے صرف یہ کہا: ’’اے درویش! تم نے یہ کیا کیا؟ اس میں تو بعض ایسی کتابیں تھیں جو کہیں نہیں ملتیں‘‘۔
یہ سنتے ہی درویش نے پانی میں ہاتھ ڈالا اور تمام کتابیں نکال کر مولانا روم کے سامنے رکھ دیا، جو جوں کی توں سوکھی ہوئی تھیں۔ مولانا روم کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا اور آپ نے پوچھا: ’’یہ کیا بات ہے؟‘‘۔ درویش نے جواب دیا: ’’یہ تم نہیں جانتے، اسے ذوق و حال کہتے ہیں‘‘۔ اتنا سننا تھا کہ مولانا روم اس درویش کے نہ صرف گرویدہ بلکہ مرید ہو گئے۔ اس سلسلے میں مولانا روم نے یہ شعر کہا:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
وہ درویش حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو بڑے اللہ والے تھے۔ مولانا روم پر حضرت شمس تبریز کا اتنا اثر ہوا کہ آپ نے خود کو درویش کے رنگ میں رنگ لیا اور ان ہی کے ساتھ جنگل میں نکل گئے اور اپنے پیر کے ساتھ دن رات حق کی باتوں میں مصروف رہنے لگے۔ چوں کہ مولانا روم نے طلبہ کو تعلیم دینا چھوڑ دیا تھا، اس لئے شاگرد ان سے چھوٹ گئے۔ رشتہ دار اور دوست احباب بھی جدا ہو گئے۔ ان سب نے خیال کیا کہ مولانا کے جدا ہونے کا سبب صرف حضرت شمس تبریزی ہیں، اس لئے وہ سب ان کے دشمن ہو گئے اور انھوں نے یہ تدبیر سوچی کہ راستے کے روڑے کو ہٹادینا چاہئے، جن کی وجہ سے مولانا روم ہم سب سے جدا ہو گئے ہیں۔ چنانچہ ایک روز جب کہ مولانا اپنے پیر کے ساتھ ذکر و اذکار میں مشغول تھے، ان لوگوں نے حضرت شمس تبریزی کو پکارا۔ جب وہ باہر نکلے تو ان پر کچھ لوگوں نے حملہ کردیا۔ اسی وقت ایک دل دہلا دینے والی چیخ سنائی دی، جس کے سنتے ہی سب کے سب بیہوش ہو گئے اور جب تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو لوگوں نے دیکھا کہ حضرت شمس تبریزی غائب ہیں اور خون کی چند بوندیں وہاں پڑی ہوئی ہیں۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ اس واقعہ سے بہت متاثر ہوئے، اس لئے کہ ان کے پیر ان سے جدا ہو گئے تھے۔ کھانے پینے کا ہوش اور پہننے اوڑھنے کا خیال تک نہ رہا۔ ہر وقت کسی خیال میں ڈوبے رہتے اور اِدھر اُدھر مارے مارے پھرنے لگے۔ یہ حالت کچھ دنوں تک رہی اور بعد میں طبیعت میں کچھ سکون ہوا تو آپ نے اپنے چہیتے دوست اور مرید حسام الدین کے کہنے پر اپنی منظوم کتاب لکھی، جو ’’مثنوی مولانا روم‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کتاب میں اچھی اچھی باتیں اشعار میں کہانی کے طورپر بیان کی گئی ہیں، جو انسان کو اچھا بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی مثنوی میں ہندوستان کا ذکر کئی جگہوں پر آیا ہے اور ہندوستان کی دو مشہور کتابوں ’’پنچ تنتر‘‘ اور ’’کلیلہ و دمنہ‘‘ کے حوالے بھی آئے ہیں اور ان کی کچھ کہانیاں بھی اس میں ہیں۔ مولانا روم خشک مزاج نہیں، بلکہ بزلہ سنج تھے۔ آپ بڑے مزے کی باتیں کرتے تھے اور ہنسی ہنسی میں بہت ہی کام کی باتیں سمجھا جاتے تھے۔
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے انسانوں کی خدمت اور دل کی پاکی پر بہت زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ محبت دنیا کی سب سے بڑی دولت ہے۔ مولانا روم کی مثنوی کا ترجمہ فارسی سے اردو میں ہو چکا ہے، جو عام طورپر کتب خانوں میں دستیاب ہے۔
دعائے مغفرت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کردیا جاتا ہے تو وہ جنتی بندہ پوچھتا ہے کہ ’’اے اللہ! میرے درجہ اور مرتبہ میں یہ ترقی کس وجہ سے ہوئی؟‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’تیری فلاں اولاد کی دعائے مغفرت کی وجہ سے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’قبر میں مدفون مُردے کی مثال بالکل اُس آدمی کی سی ہے، جو دنیا میں ڈوب رہا ہو اور مدد کے لئے پکار رہا ہو۔ وہ انتظار کرتا ہے کہ ماں باپ، بھائی بہن یا دوستوں کی طرف سے دعائے رحمت و مغفرت کا تحفہ پہنچے۔ جب کسی کی طرف سے اس کو دعا کا تحفہ پہنچتا ہے تو وہ اس کو دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ دُنیاوالوں کی دعاؤں کی وجہ سے مُردوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثوابِ عظیم ملتا ہے اور مُردوں کے لئے زندوں کا خاص ہدیہ دعائے مغفرت ہے۔ (مرسلہ)