مولانا غلام رسول سعیدی حضرت عثمان غنی؄ کے دَور کی فتوحات

سنہ ۲۴ہجری کی ابتداء میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجلس شوریٰ کے انتخاب سے خلیفہ اور امیر المؤمنین منتخب ہوئے۔ آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات شیخین (حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی سنت کے مطابق کارِخلافت انجام دیتے تھے۔ آپ کے بارہ سالہ دورِ حکومت میں اسلامی سلطنت کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا تھا۔ سنہ ۲۴ہجری میں آپ نے آذربائیجان اور آرمینیہ پر فوج کشی کرکے وہاں کے باشندوں کو مطیع کیا۔ ۲۵ہجری میں طرابلس کو فتح کیا۔ ۲۶ہجری میں الجزائر اور مراکش کے علاقے فتح کئے۔ ۲۸ھ میں بحر روم میں شام کے قریب قبرص (سائپرس) کو بحری جنگ کے ذریعہ فتح کیا۔ ۳۰ھ میں طبرستان کو فتح کیا۔ ۳۳ھ میں قسطنطنیہ سے متصل علاقوں مرودر، طالستان اور جوزجان کو فتح کیا۔ اسلامی فتوحات کا یہ سیلاب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد رُک گیا اور حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے چھ سال تک تعطل رہا۔ اس کے بعد حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور خلافت میں فتوحاتِ اسلامیہ کو ایک بار پھر نشاۃ ثانیہ حاصل ہوئی۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور خلافت کے آخر میں ان کے خلاف بعض لوگوں نے شورش پیدا کردی اور فتنہ و فساد کا ایک سیلاب اُمڈ آیا۔ اس وقت کابل سے لے کر مراکش تک تمام علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں تھا، جس میں سیکڑوں قومیں آباد تھیں۔ ان محکوم قوموں میں فطرتاً مسلمانوں کے خلاف جذبۂ انتقام موجود تھا، لکن مسلمانوں کی قوت اور سطوت کے مقابلہ میں وہ بے دست و پا تھے، اس لئے انھوں نے سازشوں کا جال بچھایا، جن میں یہودی اور مجوسی سب سے آگے تھے۔ مجوسی چاہتے تھے کہ ایسا انقلاب پیدا کیا جائے، جس میں ان کی مدد سے حکومت ایسے عام خاندان کی طرف منتقل ہو، جس سے وہ زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرسکیں، جب کہ یہودی یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں میں ایسا افتراق پیدا کردیا جائے، جس سے ان کی قوت پاش پاش ہو جائے۔ ان اغراض کے تحت ہر شخص اپنی اپنی کوشش میں مصروف تھا۔ اشتر نخعی، جندب اور صعصعہ نے کوفہ کو اپنی شرارتوں کا مرکز بنایا، لیکن سب سے زیادہ خطرناک شخص ایک یہودی النسل نومسلم عبد اللہ بن سبا تھا، جس نے اپنی حیرت انگیز سازشانہ قوت سے مختلف الخیال مفسدوں کو ایک مرکز پر متحد کردیا۔ عبد اللہ بن سبا کے پیروکاروں کا طریقۂ کار یہ تھا کہ بظاہر متقی اور پرہیزگار بننا اور وعظ و نصیحت سے لوگوں کو اپنے حلقہ بگوش کرنا۔ عمال کو تنگ کرنا اور ہر ممکن طریقے سے ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرنا۔

مفسدین کا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کنبہ پروری کا اتہام بالکل بے بنیاد ہے۔ آپ؄ انتہائی امیر و کبیر شخص تھے، عہد رسالت میں آپ کی فیاضی کی مثالیں یادگار ہیں۔ آپ نے بیس ہزار درہم دے کر ایک یہودی سے میٹھے پانی کا کنواں خریدکر مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔ بیش بہا رقم خرچ کرکے مسجد نبوی کی توسیع کے لئے زمین خریدی اور بہت سے مواقع پر مسلمانوں کی اپنے مال سے خدمت کی۔ مفسدین کے اعتراض کے جواب میں آپ نے خود وضاحت فرمائی کہ ’’میں اپنے اقرباء کو جو کچھ دیتا ہوں، اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں اور بیت المال کا مال نہ اپنے لئے حلال سمجھتا ہوں اور نہ کسی دوسرے شخص کے لئے‘‘۔ (تاریخ طبری، ج۳،صفحہ۱۳۶)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک مشہور اعتراض یہ تھا کہ آپ نے طرابلس کے مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ مروان کو بلاعوض دے دیا تھا، یہ سراسر لغو اور بہتان ہے۔ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ ’’ابن زبیر نے فتح کی بشارت اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ دارالخلافت روانہ کیا، اس مال کو پانچ لاکھ دینار کے عوض مروان نے خرید لیا اور بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ یہ مال مروان کو مفت دے دیا گیاتھا، صحیح نہیں ہے‘‘۔ (تاریخ ابن خلدون،ج۲، صفحہ۱۲۹)