غزوۂ تبوک کے موقع پر جتنی مقدار میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے لشکر اسلام کی مدد کی تھی، صحابہ کرام میں سے کوئی شخص اتنی مقدار میں لشکر اسلام کی مدد نہ کرسکا، بلکہ غزوہ تبوک کے لئے لشکر کی تیاری کا سہرا دراصل آپ ہی کے سر تھا اور وہ اس میدان میں سب سے آگے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو آج تک ’’مجھز جیش العسرۃ‘‘ یعنی ’’غزوہ تبوک کے لشکر کو تیار کرنے والے‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں تین بار فرمایا کہ ’’آج کے بعد عثمان جو عمل بھی کریں، ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا‘‘۔ اس فرمان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ حلال یا حرام جو مرضی آئے کرو، تم سے کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عثمان کی صالحیت پر مکمل اعتماد تھا اور آپﷺ کو کامل یقین تھا کہ عثمان سے کوئی ناجائز اور حرام کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یوں تو تمام خلفائے راشدین پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا کہ ان میں سے کوئی بھی ناجائز یا حرام کام نہیں کرے گا، اسی لئے ان حضرات کو جنت کی بشارت دی تھی، لیکن یہ شرف اور مقام صرف حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس یقین کا حضرت عثمان کے بارے میں برملا اظہار کردیا کہ ’’جاؤ جو مرضی میں آئے کرو، تم سے کوئی نہیں پوچھے گا‘‘۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حضرت عثمان تاحیات اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کریں گے۔ سرکار کا یہ فرمان درحقیقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی اطاعت شعاری اور وفاداری کی سند تھی، مستقبل کے تفکرات اور آخرت کے خطرات سے محفوظ رکھنے کا سہرا تھا اور یہ ایسا سہرا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام میں سے صرف حضرت عثمان کے سر پر باندھا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بیعت رضوان کا حکم دیا، اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مکہ میں تھے۔ تمام صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر قصاص عثمان لینے کے لئے بیعت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عثمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں مکہ گئے ہوئے ہیں‘‘۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دے کر دوسرے ہاتھ پر رکھا (یعنی حضرت عثمان کی طرف سے بیعت کی)‘‘۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ عثمان کا ہاتھ اس موقع پر تمام صحابہ کے ہاتھوں سے بہتر تھا، کیونکہ ان کا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھا۔ (مشکوۃ (ترمذی) صفحہ۵۶۱)
اس موقع پر تمام صحابہ کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کے طالب تھے اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بیعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلوب تھے، یا یوں کہئے کہ تمام صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرید اور حضرت عثمان، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تھے۔ اول تو یہ فضیلت بھی کچھ کم نہیں کہ حضور نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر حضرت عثمان کا مقام یہ ہے کہ بیعت رضوان کے موقع پر اللہ تعالی نے فرمایا: ’’جو لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں، وہ درحقیقت اللہ تعالی کے ہاتھ پر بیعت کر رہے ہیں‘‘ (سورہ فتح۔۱۰) اور جس موقع پر اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا، اسی موقع پر حضور نے اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔ ان دونوں باتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ بیعت رضوان کے وقت نگاہ الوہیت میں جو مقام سرکار کے ہاتھ کا تھا، نگاہ رسالت میں وہی مقام حضرت عثمان کے ہاتھ کا تھا۔ یہ سب کچھ حضرت عثمان کے مقام کی بلندی اور ان کی عظمت تھی۔ بیعت رضوان کا واقعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا مقام کیا تھا۔ (اقتباس)