مولانا غلام رسول سعیدی اطاعت میں کمی پر مواخذہ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احد میں حضرت عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں پچاس جوانوں کو ایک درّہ پر کھڑا کردیا اور فرمایا کہ ’’فتح ہو یا شکست، تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کردی اور مسلمانوں نے کفار کے چھوڑے ہوئے مال کو اکٹھا کرنا شروع کردیا تو حضرت عبد اللہ بن جبیر کے بعض وہ ساتھی، جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے، اپنے امیر کے پیہم منع کرنے کے باوجود مال غنیمت کی طمع میں وہ درّہ خالی چھوڑ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو فراموش کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی جیتی ہوئی بازی کو ہار میں تبدیل کردیا۔ غور کیجئے کہ پچاس سے کم افراد نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس پر کس قدر سخت مواخذہ کیا؟ اور جب لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان دن رات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار احکام کی خلاف ورزیاں اور نافرمانیاں کر رہے ہوں تو ان کی یہ بداعمالیاں اللہ تعالیٰ کے غضب کو کس طرح للکار رہی ہوں گی۔
ایک وقت تھا جب مسلمان اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے ہوئے اور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ اس وقت جزیرۂ عرب سے لے کر ساحلِ مکران تک مسلمانوں کی سطوت کے پرچم لہرا رہے تھے، بلکہ سلطنت عباسیہ میں اسلامی حکومت تین براعظموں میں پھیل چکی تھی۔ بحروبر پر ان کی حکومت تھی، دریا ان کے حکم سے جاری ہوتے تھے اور قضائے الہٰی ان کے عزائم کا ساتھ دیتی تھی۔ مسلمان جس طرف نکل جاتے تھے، مظلوموں کی فریاد رسی کرتے تھے، ضرورت مند لوگوں میں دَھن دولت تقسیم کرتے تھے، جہالت کے گوشوں کو اپنے علم کی قندیلوں سے روشن کیا اور تحقیق و تدقیق کے میدان میں سبقت کے پرچم انھوں نے نصب کئے، لیکن جب انھوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو چھوڑا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نصرت نے انھیں چھوڑدیا اور وہ قوم جو مشرق و مغرب میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکی تھی، ہر جگہ پسپا اور مغلوب ہونے لگی۔ جو قوم فقراء و مساکین میں دولت اور غلہ تقسیم کرتی تھی، آج اپنی معاشی ضروریات کے لئے اغنیاء کی طرف کاسۂ گدائی بڑھانے لگی۔ جو دنیا میں علم و حکمت کے استاد بن کر نکلے تھے، وہ علم کی تلاش میں اغیار کے محتاج ہو گئے اور جو دوسروں کی عزت و ناموس کے محافظ تھے، آج اپنی حفاظت کے لئے غیروں کا منہ تکنے لگے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نعمت دے کر اس وقت تک وہ نعمت اس سے واپس نہیں لیتا، جب تک اپنے چلن سے وہ خود کو اس نعمت کا نااہل ثابت نہ کردے‘‘ (سورۃ الانفال۔۵۳) سورۃ الحدید (آیت۔۱۶) میں ارشاد ربانی ہے: ’’(اللہ تعالیٰ کے عذاب کی اس قدر واضح صورتیں دیکھنے کے باوجود) کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تمہارے دل خوف خداوندی سے پگھل جائیں‘‘۔ ضرورت ہے کہ ہم اجتماعی طورپر اصلاح کریں، ہر شخص خود نیک بنے اور اپنے زیر اثر لوگوں کو نیک بنائے۔ ایک فرد دوسرے فرد کو اور ایک محلہ دوسرے محلہ کو نیک بنائے۔ پہلے ہم اپنی ذات کو اور پھر اپنے گھر اور خاندان کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر بنائیں، یہاں تک کہ قریہ قریہ اور شہر شہر میں اسلام پھیلتا چلائے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کی اصلاح کا ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے بارے میں باز پُرس ہوگی‘‘۔ اس لئے ہر گھر کے بااثر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی نیک بنے اور اپنے گھر والوں کو بھی نیک بنائے۔ استاد اپنے شاگردوں میں نیکی پھیلائے، کسی محکمہ کا سربراہ اپنے پورے محکمہ میں نیکی کو فروغ دے، اسی طرح انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں خواہ وہ تجارت کا ہو یا ملازمت کا، سیاست کا ہو یا سفارت کا، پولیس کا محکمہ ہو یا فوج کا، جو بھی اس شعبہ کا سربراہ ہو، وہ اپنے حلقۂ اثر میں حقوق اللہ کی ادائیگی اور حقوق العباد کی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی تلقین کرے۔ اسی طرح چراغ سے چراغ جلتے رہیں، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اسلامی اقدار کا فروغ نہ ہو۔ (اقتباس)