انصاف کے معنی لغت میں کسی چیز کے دو مساوی حصے کرنے کے آتے ہیں، اسی وجہ سے اسلامی عدل و انصاف کو بعض لوگ ’’اسلامی مساوات‘‘ یا ’’مساواتِ محمدی‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور اسی تعبیر سے ایک مغالطہ کا دروازہ کھلتا ہے، جب کہ بعض لوگ اسلامی مساوات یا مساواتِ محمدی کی تشریح طبقاتی مساوات سے کرتے ہیں اور یہ تشریح ایک مسلمان کو بتدریج اشتراکیت اور الحاد کی طرف لے جاتی ہے۔ اسی لئے ہم اسلامی فلسفۂ عدل و انصاف بیان کرنے سے پہلے طبقاتی مساوات پر مفصل گفتگو کریں گے اور اس کے بعد ہم یہ بیان کریں گے کہ اسلام میں عدل و انصاف کی صحیح تعبیر اور تشریح کیا ہے۔
اس کائنات کے فطری نظام پر غور کیا جائے تو آپ کو ہر چیز ایک جداگانہ مرتبہ اور حیثیت میں نظر آئے گی۔ جس نظام شمسی میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس میں سورج سے زیادہ طاقتور اور کوئی سیارہ نہیں ہے۔ چاند اور زمین اس کے مقابلہ میں کم حیثیت کے حامل ہیں۔ زرعی پیداوار میں پھلوں کی اجناس پر نگاہ ڈالیں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ تمام پھل مساوی درجہ اور قیمت نہیں رکھتے۔ پھلوں کی جنس تو دور کی بات ہے، کسی ایک پھل کی نوع مثلاً آم اور اس کی تمام اقسام، درجہ اور قیمت میں برابر نہیں ہیں۔ اسی طرح غلہ کی تمام اجناس بھی قیمت اور درجہ میں مساوی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جنس تو الگ رہی، غلہ کی کسی ایک نوع چاول کو لے لیں، تو کیا اس کی تمام اقسام ایک قیمت پر ملتی ہیں؟۔ یہی حال پھولوں کا ہے۔ ہر ایک پھول کی ایک الگ رنگت، علحدہ خوشبو اور اس کا اپنا ایک منفرد مقام ہوتا ہے، جو کسی دوسرے پھول کو حاصل نہیں ہوتا ہے۔
انسان خود اپنی جسمانی ساخت پر غور کرے کہ کیا اس کے جسم کے تمام اعضاء مساوی حیثیت اور مرتبہ رکھتے ہیں؟ کیا دماغ، دل، ہاتھ اور پیر مساوی مرتبہ کے ہیں؟۔ اگر انسان کے ہاتھ یا پیر کاٹ دیئے جائیں تو اتنا زیادہ نقصان نہیں ہوگا، لیکن اگر اس کے دل یا دماغ پر گولی لگ جائے اور اس سے دل یا دماغ بیکار ہو جائے تو اس کی زندگی ختم ہو جائے گی۔
ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھئے کہ ایک شخص اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کھیل کود اور آوارہ گردی میں گزار دیتا ہے، اپنے روشن مستقبل کے لئے تعلیم و تربیت کا حصول، محنت اور جدوجہد نہیں کرتا۔ بالآخر بڑا ہونے کے بعد کسب معاش کے لئے اینٹیں ڈھوتا ہے اور کوئی محنت مزدوری کا کام کرتا ہے۔ اس کے برخلاف ایک شخص بچپن سے ہی اپنے آپ کو حصول تعلیم کی کٹھن راہوں سے گزارتا ہے اور بڑا ہوکر معاشرہ میں ایک انجینئر، ڈاکٹر یا عالم دین کی حیثیت سے اُبھرتا ہے۔ کیا عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایک غیر تعلیم یافتہ مزدور اور ایک ماہر انجینئر دونوں کی آمدنی اور سماجی مقام کو ایک پیمانہ پر تولا جائے؟۔ اس لئے اگر ہم ہوش و حواس کو خیرباد نہیں کہہ چکے تو ہم کو ماننا پڑے گا کہ طبقاتی مساوات ایک غیر فطری اصطلاح ہے اور اس غیر فطری اصطلاح کا اسلام کے ساتھ کوئی پیوند نہیں لگ سکتا، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح اور واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ ’’ہر شخص کو اس کی محنت کے مطابق ثمر ملتا ہے‘‘۔
اسی طرح مال و دولت اور عزت و حشمت کے اعتبار سے بھی سب انسان مساوی نہیں ہوسکتے۔ ایک شخص کفایت شعاری کرکے پیسے بچاتا ہے اور اس کو تجارت میں لگاکر بڑھاتا چلا جاتا ہے اور معاشرہ میں ایک امیر کبیر شخص کی حیثیت سے اُبھرتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسرا شخص اپنی تمام آمدنی کو عیاشی اور رنگ رلیوں میں صرف کردیتا ہے اور ہمیشہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دوسروں کا دست نگر رہتا ہے۔ کیا ان دونوں شخصوں کو ایک مساوی طبقہ میں رکھنا یہی مساوات اور عدل و انصاف کا تقاضا ہے؟۔ اس قسم کا اقدام نہ صرف یہ کہ عدل و انصاف کا خون ہے، بلکہ قرآن کریم کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو دوسرے بعض لوگوں پر رزق میں فضیلت دی ہے‘‘ (سورۂ نحل۔۷۱) (اقتباس)