گرفتاری کیلئے کانگریس بھی ذمہ دار، فرقہ وارانہ خطوط پر رائے دہندوں کو منقسم کرنے کی کوششیں، احتجاجی جلسہ عام سے علماء کرام اور سیاسی قائدین کا خطاب
حیدرآباد ۔25 ۔ مارچ (سیاست نیوز) دہلی میں گجرات پولیس کی جانب سے مولانا عبدالقوی ناظم مدرسہ اشرف العلوم کی گرفتاری اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ماخوذ کئے جانے کے خلاف عظیم الشان احتجاجی جلسہ عام کا انعقاد عمل میں آیا جس میں بلا امتیاز سیاسی و جماعتی وابستگی علماء ، حفاظ اکرام ، سیاسی قائدین نے شرکت کرتے ہوئے مولانا عبدالقوی کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا اور فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ۔ مولانا عبدالرحیم قریشی صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت کی زیر صدارت اس جلسہ عام سے خطاب کے دوران علماء اکرام نے کانگریس کے خلاف مہم کا آغاز کرنے کا انتباہ دیا اور کہا کہ دہلی میں صدر راج اور آندھراپردیش صدر راج کے دوران جو کارروائی پولیس نے کی ہے اس کیلئے مرکزی حکومت ذمہ دار ہے ۔ علماء اکرام نے اس عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ علماء و مصلحین قوم پر گجرات پولیس کی کارروائیاں حدود سے تجاوز کرگئی ہیںاور ان کارروائیوں کے خلاف بڑے پیمانہ پر احتجاج کیا جائے گا۔ جلسہ عام میں شرکت کرنے والی اہم شخصیتوں میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا محمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ ، مولانا قاضی سمیع الدین، مولانا سید شاہ جمال الرحمن مفتاحی، مولانا محمد رحیم الدین انصاری ، مولانا فصیح الدین ندوی ، مولانا حافظ پیر شبیر احمد، مولانا ارشد قادری ، مولانا مفتی غیاث رحمانی، جناب محمود علی رکن قانون ساز کونسل ٹی آر ایس ، جناب مظفر علی خان انچارج حلقہ اسمبلی ملک پیٹ تلگودیشم ، جناب امجد اللہ خان خالد کارپوریٹر ، مسٹر احمد بلعلہ رکن اسمبلی ملک پیٹ ، مولانا ارشد قاسمی کے علاوہ دیگر موجود تھے جنہوں نے اس جلسہ عام سے خطاب کے دوران شدید جذبات و احساسات کا مظاہرہ کیا ۔ علماء نے بتایا کہ ایک منظم سازش کے تحت علماء و قد آور شخصیتوں کو نشانہ بناتے ہوئے سرزمین ہندوستان پر عرصہ حیات کو تنگ کرنے کی ناپاک سازش کی جارہی ہے
لیکن اس سازش میں فرقہ پرست قوتیں کامیاب نہیں ہوپائیں گی چونکہ اس ملک کے سیکولر خمیر میں علماء اکرام کی قربانیاں بھی شامل ہیں اور مسلمان اس ملک میں دیگر اقوام کے برابر حقوق کے ساتھ رہنے کا قائل ہے، اس احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کرنے والے علماء نے مولانا عبدالقوی کو ایک بہترین مصلح قوم و محقق قرار دیتے ہو ئے کہا کہ اس شخص کو گجرات پولیس دہشت گردانہ کارروائی کے مقدمہ میں ماخوذ کرتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ ملک میں ہر داڑھی اور ٹوپی والا شخص مشتبہ ہے ۔ مولانا عبدالقوی کی گرفتاری پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے علماء نے بتایا کہ مولانا عبدالقوی کو 10 سال پرانے ایک جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں گجرات پولیس نے گرفتار کرتے ہوئے فرقہ پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی کے مقاصد کی تکمیل کی کوشش کی ہے ۔ چونکہ مودی کے جھوٹے ترقیاتی وعدے اب کھلنے لگے ہیں تو ایسی صورت میں انتخابات سے قبل ملک میں فرقہ وارانہ خطوط پر رائے دہی کے فروغ کیلئے یہ اقدام کیا گیاہے ۔ مقررین نے اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جب مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی تھیں اسی وقت اختیار کردہ خاموشی کے باعث آج یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے کہ دین اسلام کے مبلغین جو کہ ملک بھر میں مخالف دہشت گردی جلسوں سے خطاب کرتے آئے ہیں ، انہیں ہی دہشت گردی کے الزامات میں ماخوذ کرتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران کہا کہ مولانا عبدالقوی کی گرفتاری کے ذریعہ دینی مدارس کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے ۔ مولانا محمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ نے اس موقع پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو ہی آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں اور انہیں ’’قوی ‘‘ امید ہے کہ مولانا عبدالقوی بہت جلد رہا کردیئے جائیں گے ۔
جلسہ عام سے خطاب کے دوران مولانا ارشد قاسمی نے بتایا کہ مولانا عبدالقوی کی گرفتاری ملک میں قانون کے قتل کے مترادف ہے چونکہ جو شخص ریاست بھر میں ’’مخالف دہشت گردی ‘‘ جلسوں کا کنوینر رہا اسے ہی دہشت گردی کے الزامات میں ماخوذ کرتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے علماء پر پولیس کی کارروائیوں کو فرقہ وارانہ ذہنیت کی عکاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کارروائی کے ذریعہ علماء کو خوفزدہ نہیں کیا جاسکتا چونکہ علماء نے اس ملک کیلئے نہ صرف جیلوں کی صعوبتیں برداشت کی ہیں بلکہ اپنی جانوں کی قربانی بھی دی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ جمیعتہ علماء نہ صرف قانونی جدوجہد کرے گی بلکہ سیاسی جدوجہد بھی کی جائے گی ۔ مینار گارڈن نیا پل میں منعقدہ اس احتجاجی جلسہ عام میں نہ صرف آندھراپردیش کے تمام اضلاع سے علماء کی بڑی تعداد نے شرکت کی بلکہ پڑوسی ریاستوں کرناٹک و مہاراشٹرا کے جید علماء بھی موجود تھے جنہوں نے گجرات پولیس کی کارروائی کی مذمت کی ۔جناب سید عزیز پاشاہ نے اس احتجاجی جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ ملک میں فسطائی طاقتوں نے اپنے دبدبہ قائم کرنے کیلئے فرقہ واریت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ انہوں نے مولانا کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گجرات پولیس کی اس کارروائی کے خلاف سیاسی و قانونی طور پر جدوجہد کی جانی چاہئے۔ جناب مظفر علی خان نے اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران کہا کہ وہ گزشتہ 8 برسوں سے مولانا عبدالقوی کے حلقہ ارادت میں ہیں اور انہیں بھی اتنی ہی تکلیف ہے جتنی تکلیف مولانا کے افراد کے خاندان کو ہے ۔ جناب امجد اللہ حان خالد نے اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران حکومت سے مطالبہ کیا کہ جن عہدیداروں نے اپنی خدمات سے سبکدوشی کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے ان کی جانب سے درج کردہ مقدمات و کارروائیوں کی تحقیقات کروائی جانی چاہئے ۔
انہوں نے ذرائع ابلاغ کی جانب سے مولانا عبدالقوی کو دہشت گرد کے طور پر پیش کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ ادارے تحقیق کریں کہ آیا مولانا عبدالقوی ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں ؟ مسٹر احمد بلعلہ نے اس موقع پر مقدمہ کی نوعیت و تفصیلات سے واقف کروایا ۔ علماء نے اس اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا کہ ضلعی سطح پر علماء کی جانب سے ضلع کلکٹرس کو یادداشت پیش کرتے ہوئے مولانا عبدالقوی کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔ جناب محمود علی رکن قانون ساز کونسل ٹی آر ایس نے اس موقع پر اپنے خطاب کے دوران گورنر سے نمائندگی کا اعلان کیا اور کہا کہ مسلمانوں پر مزید مصائب ناقابل برداشت ہیں۔ جلسہ میں موجود نوجوان علماء جذبات سے مغلوب مولانا عبدالقوی صاحب کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگارہے تھے۔ علماء نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ دعا کو اپنا ہتھیار بنائیں اور اللہ کو راضی کریں۔ مولانا عبدالمغنی مظاہری نے مولانا عبدالقوی کی گرفتاری اور اس کے بعد پیدا شدہ حالات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اللہ کی ذات پر کامل یقین ہے کہ اللہ مولانا کی حفاظت فرمائے گا اور جلد از جلد رہائی کی سبیلیں پیدا ہوں گی ۔ جناب منیر الدین مجاہد ، جناب منیر الدین مختار ، جناب عبدالقیوم شاکر کے علاوہ دیگر بھی اس احتجاجی جلسہ عام میں شریک تھے ۔ پولیس کی جانب سے مینار گارڈن کے اطراف و اکناف کی سڑکوں پر بھاری بندوبست کیا گیا تھا اور خصوصی طور پر فورسس کو متعین کرتے ہوئے لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے اقدامات کئے گئے تھے۔ علماء نے انتخابات سے قبل مولانا عبدالقوی کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کو احمد آباد اور دہلی تک وسعت دینے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔