ممبئی 3اکتوبر(سیاست ڈاٹ کام)ممنوع دہشت گرد تنظیم القائدہ سے تعلق رکھنے کے الزمات کے تحت گرفتار مشہور عالم دین مولانا انظر شاہ قاسمی و دیگر ملزمین کو مقدمہ سے بری کئے جانے والی عرضداشت پر آج دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے اسپیشل این آئی اے جج شری رتیش سنگھ کی عدالت میں فریقین کی بحث مکمل ہوئی جس کے بعد جج نے ڈسچارج عرضداشت پر فیصلہ صادر کرنے کے لئے 27 اکتوبر کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے سماعت ملتوی کئے جانے کے احکامات جاری کئے ۔یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیت علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) سے موصول ہوئی۔جمعیت علماء مہاراشٹر جانب سے مقدمہ کی پیروی کرتے ہوئے دہلی کے مشہور وکیل ایڈوکیٹ ایک ایس خان نے عدالت کو بتایا کہ این آئی اے نے ان لوگوں کو القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جبکہ اس تنظیم سے ان کا کوئی تعلق نہیں نیز ملزم انظر شاہ کے قبضہ سے تحقیقاتی دستوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی انہوں نے اس معاملے میں کوئی اقبالیہ بیان دیا ہے ۔ایڈوکیٹ ایم ایس خا ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ جس سرکاری گواہ نے انظر شاہ کے خلاف بیان درج کرایا تھااور اپنے سابقہ بیان سے منحرف ہوچکا ہے اور اس معاملے کے دیگر ملزم محمد آصف نے بھی انظر شاہ کے تعلق سے کوئی بیان نہیں دیا ہے ۔ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے عدالت کو ملزم محمد آصف کے تعلق سے بتایا کہ تحقیقاتی دستوں نے عدالت میں ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں پیش کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ملزم پاکستان ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے گیا تھا اور وہاں سے واپس آنے کے بعد اس نے دیگر ملزمین مین پیسے بھی تقسیم کیئے تھے ۔ واضح رہے کہ اسی سال کی6 جنوری کی شب نو بجے مولانا انظر کو دہلی پولیس نے ممنوع تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور تحقیقاتی دستہ نے عدالت کو بتایا تھاکہ ملزم کو ممنوع تنظیم القاعدہ کے لیئے کام کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ۔ عیاں رہے کہ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے فارغ مولانا عبدالرحمن جنہیں دیگر ملزمین کے ہمراہ ممنوع تنظیم القاعدہ سے تعلق کی بناء پر گرفتا ر کیا گیا تھا کی ڈسچارج عرضداشت پر گذشتہ ہفتہ سینئر کریمنل وکیل نتیار راما کرشنن اور ایڈوکیٹ ساریم نوید نے بحث کی تھی اور عدالت کو بتایا تھا کہ ملزم عبدالرحمن کے خلاف یو اے پی اے کی فعات کے تحت مقدمہ بنتا ہی نہیں کیونکہ تحقیقاتی دستوں نے ان کے خلاف جو ثبوت اکٹھا کئے ہیں وہ قانون کی نظر میں قابل قبول ہے ہی نہیں لہٰذا ملزم کو ڈسچار ج کیا جائے۔ آج کی سماعت کے بعد امید ہے کہ27اکتوبر کو دہلی کی خصوصی این آئی اے عدالت ملزمین کی قسمت کا فیصلہ کردے گی۔