مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے غلط فیصلوں سے داخلوں پر منفی اثر

داخلوں کے رجحان میں کمی ، حد عمر میں بھی تخفیف سے برا اثر ، یونیورسٹی حکام پریشان حال
حیدرآباد۔/3جولائی، ( سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں جاریہ سال داخلوں کے رجحان میں کمی دیکھی گئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے طلباء یونیورسٹی میں داخلے کے سلسلہ میں دلچسپی نہیں دکھارہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی نے حال ہی میں جو دو اہم فیصلے کئے جس کا اثر داخلوں پر پڑا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے بعض کورسیس کے سلسلہ میں داخلوں کیلئے عمر کی حد 28سال مقرر کی اور خواتین کو دو سال کی رعایت دی گئی جبکہ اس سے قبل ان کورسیس میں داخلے کیلئے عمر کی کوئی حد نہیں تھی۔ اس کے علاوہ بتایا جاتا ہے کہ انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسیس کے طلباء کو ادا کی جانے والی ایک ہزار روپئے اسکالر شپ کی رقم کی ادائیگی روک دی گئی۔ یونیورسٹی کے ان دو فیصلوں کے سبب جاریہ سال کئی کورسیس میں داخلے انتہائی کم ہوئے ہیں۔ داخلوں کی آخری تاریخ 2جولائی تھی اور کم داخلوں کے سبب یونیورسٹی کے حکام بھی تشویش میں مبتلاء ہیں اور تاریخ میں توسیع کے امکانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس بارے میں جب یونیورسٹی کے انچارج وائس چانسلر پروفیسر خواجہ شاہد سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے بعض کورسیس میں کم داخلوں کا اعتراف کیا تاہم اس کیلئے ان کی دلیل یہ تھی کہ عام طور پر ان کورسیس میں داخلے کم ہی ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پبلک اڈمنسٹریشن، ماس کمیونیکیشن اور ٹرانسلیشن سے متعلق کورسوں میں کم داخلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ فارسی کے شعبہ میں بھی داخلوں کا رجحان کم دیکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر کورسیس میں داخلے اطمینان بخش رہے اور بعض کورسیس میں امیدواروں کے درمیان سخت مسابقت ہے۔ انچارج وائس چانسلر نے اسکالر شپ کی برخواستگی کے فیصلہ سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں اس بارے میں مختلف گوشوں سے اطلاعات ملی ہیں جس کا وہ جائزہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسکالر شپ کے سلسلہ میں جو سابقہ طریقہ کار ہے اس کو جاری رکھا جائے گا۔ تاہم وہ اس سلسلہ میں متعلقہ عہدیداروں سے معلومات حاصل کریں گے۔ انچارج وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی نے تمام کورسیس میں داخلوں کیلئے عمر کی حد 28سال مقرر نہیں کی ہے صرف چند کورسیس کیلئے عمر کی حد مقرر کی گئی جبکہ دیگر کورسیس میں داخلوں کیلئے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اسی دوران یونیورسٹی کے ذرائع نے بتایا کہ ڈسٹینس ایجوکیشن کونسل کی جانب سے دیئے جانے والے فنڈز کو طلباء میں بطور اسکالر شپ تقسیم کیا جاتا رہا لیکن جاریہ سال سے اسے مسدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے بعض کورسیس کی مسلمہ حیثیت کے بارے میں بھی یونیورسٹی کا موقف ابھی تک واضح نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حال ہی میں منعقدہ ایکزیکیٹو کونسل اجلاس میں یونیورسٹی کے سنٹر فار انفارمیشن ٹکنالوجی کو سبکدوش وائس چانسلر کے نام سے موسوم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یونیورسٹی کے معیار اور داخلوں کے رجحان میں کمی پر چانسلر ظفر سریش والا نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو یونیورسٹی ابھی تک مکمل یونیورسٹی میں تبدیل نہیںہوسکی جب تک اسے دوسرے سنٹرل یونیورسٹیز کے معیار کے مطابق نہیں کیا جاتا اس وقت تک طلباء کو فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی سے فارغ طلباء ملازمتوں کے حصول کے سلسلہ میں دیگر یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں کھڑے ہونے چاہیئے۔ اس سلسلہ میں وہ آئندہ پانچ برسوں کیلئے ایکشن پلان کو قطعیت دے رہے ہیں۔ نئے وائس چانسلر کے تقرر کے ساتھ ایکشن پلان پر عمل آوری کا آغاز ہوگا۔