مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قواعد کی خلاف ورزی کا پھر ایک بار آغاز

من مانی تقررات و تبادلے، انتقامی کارروائیاں، پیشرو وائس چانسلر کی روش پر عمل
حیدرآباد۔/24ستمبر، ( سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں قواعد کی خلاف ورزی اور من مانی تقررات و تبادلوں کا سلسلہ پھر ایک بار شروع ہوچکا ہے۔ موجودہ ذمہ داروں نے اپنے پیشرو وائس چانسلرس کی روش کو اپناتے ہوئے انتقامی کارروائیوں اور اپنی پسند کے افراد کے تقررات اور ترقی کی کئی مثالیں قائم کی ہیں۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کو امید تھی کہ نئے وائس چانسلر کے تقرر کے بعد صورتحال میں تبدیلی آئے گی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یونیورسٹی پر پیشرو وائس چانسلرس کا اثر و رسوخ ابھی بھی قائم ہے اور موجودہ وائس چانسلر نے اپنے اطراف حواریوں کا ایک گروہ تیار کرلیا ہے جو ان کے ہر فیصلہ کی نہ صرف تائید کررہے ہیں بلکہ قواعدکا حوالہ دینے والے اساتذہ کی نشاندہی کرتے ہوئے دوسری ریاستوں میں ان کا تبادلہ کروارہے ہیں۔ موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز جنہیں مرکز کی بی جے پی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے حالیہ عرصہ میں 6ایسے تقررات عمل میں لائے جن کیلئے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے کنٹرولر آف اگزامنیشن کے عہدہ کیلئے اعلامیہ کے بغیر ہی اپنی پسند کے شخص کا تقرر کیا گیا۔ وائس چانسلر کی یونیورسٹی میں آمد کے موقع پر اساتذہ کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے کئی مطالبات پیش کئے تھے جن میں بعض ایسے افراد کی نشاندہی کی گئی جو قواعد کے برخلاف اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ وائس چانسلر نے ان کے خلاف کارروائی کا تیقن دیا تاہم بعد میں انہوں نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے وابستہ افراد کو ترقی دیتے ہوئے اور دوسرے طریقوں سے اپنا ہمنوا بنالیاہے۔ بتایا جاتا ہے کہ رجسٹرار جن کا تعلق دہلی سے ہے وہ وائس چانسلر کے تمام اہم فیصلوں میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ گذشتہ دنوں قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پالی ٹیکنک کے دو اسسٹنٹ پروفیسرس اور دو اسوسی ایٹ پروفیسرس کا بنگلور اور دربھنگہ ( بہار ) تبادلہ کردیا گیا۔ یہ تبادلے ایک طرف قواعد کی صریح خلاف ورزی اور غیر قانونی قرار پاتے ہیں تو دوسری طرف یہ محض انتقامی کارروائی ہے کیونکہ مذکورہ اساتذہ میں پالی ٹیکنک کے پرنسپال کے غیر انسانی رویہ اور ان کی دیگر سرگرمیوں کے بارے میں حکام کو شکایت کی تھی۔ کسی بھی یونیورسٹی میں تبادلوں کیلئے باقاعدہ ٹرانسفر پالیسی کی ضرورت ہے لیکن مانو ٹیچرس اسوسی ایشن کی نمائندگی کے باوجود آج تک اردو یونیورسٹی میں ٹرانسفر پالیسی تیار نہیں کی گئی۔ مرکزی وزارت پرسونل نے تمام اداروں کو 10جولائی 2015تک ٹرانسفر پالیسی تیار کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن یونیورسٹی نے آج تک اس کی تعمیل نہیں کی۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی حکام کے رویہ سے تعلیمی ماحول متاثر ہورہا ہے۔ خاص طور پر پالی ٹیکنک کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ پالی ٹیکنک کے پرنسپال پر اساتذہ کے ساتھ ناشائستہ زبان کے استعمال کی شکایات عام ہیں اور حد تو یہ ہے کہ پرنسپال اپنے ٹیچنگ اسٹاف کو ٹائیلٹس کی صفائی کی ہدایت دے رہے ہیں۔ چونکہ مذکورہ پرنسپال کو وائس چانسلر کی سرپرستی حاصل ہے لہذا وائس چانسلر نے 4 پروفیسرس کا ریاست کے باہر تبادلہ کردیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ پرنسپال گذشتہ 8 برسوں سے زیادہ اس عہدہ پر برقرار ہیں جوکہ قواعد کی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ نے مذکورہ سرگرمیوں کے بارے میں مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل میں شکایت درج کی ہے اور توقع ہے کہ بہت جلد اس سلسلہ میں تحقیقات کا آغاز ہوگا۔ یونیورسٹی کے حکام جو نئی دہلی میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں وہ یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا کے ذریعہ کسی بھی کارروائی کو روک سکتے ہیں۔ یونیورسٹی میں بدعنوانیوں میں ملوث افراد کی سرپرستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم نے وائی فائی اور کتابوں کی پرنٹنگ کے اسکام میں 10کروڑ روپئے کی بے قاعدگیوں کا پتہ چلایا اور خاطیوں کی نشاندہی بھی کی۔ چھ ماہ سے یہ رپورٹ کسی کارروائی کے بغیر وائس چانسلر کے پاس پڑی ہوئی ہے۔ جن افراد کو بے قاعدگیوں کے سبب عہدوں سے بیدخل کیا جانا چاہیئے انہیں اعلیٰ عہدوں پر برقرار رکھا گیا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اردو یونیورسٹی ترقی کے بجائے آنے والے دنوں میں زوال کے راستہ پر چل پڑے گی۔