مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آج یوگا ڈے تقریب

عہدیداران کسی بھی تحقیقات سے بچنے کیلئے مرکزی حکومت کو خوش کرنے کوشاں
حیدرآباد۔/20جون، ( سیاست نیوز) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو مقاصد کی تکمیل سے زیادہ دہلی میں اپنے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کی فکر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنٹرل یونیورسٹی ہونے کی آڑ میں یونیورسٹی کے حکام نے اس بات کی کوشش کی تھی کہ 21جون کو ’’ عالمی یوم یوگا ‘‘ کے تحت یونیورسٹی میں بھی ’’ یوگا ڈے ‘‘ منایا جائے لیکن مسلمانوں میں ناراضگی کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے اس تجویز سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ نئی دہلی میں وزارت فروغ انسانی وسائل کے ذریعہ یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے عہدہ کے حصول کی پیروی میں مصروف بعض افراد نے تجویز پیش کی تھی کہ یونیورسٹی میں یوگا ڈے تقریب منعقد کی جائے۔ وزیر اعظم سے قربت رکھنے والے افراد کو خوش کرنے کیلئے یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام نے اس طرح کی تجویز سے اتفاق بھی کرلیا تاکہ یونیورسٹی میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کی تحقیقات کو دبایا جاسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ موجودہ انچارج وائس چانسلر نے اس مسئلہ پر بعض قریبی رفقاء سے تبادلہ خیال کیا کہ 21جون کو یونیورسٹی میں برائے نام ہی سہی لیکن یوگا ڈے منایا جائے تاکہ مرکزی حکومت کو خوش کیا جاسکے۔ یونیورسٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے تقررات خود مختلف بے قاعدگیوں کے تحت ہیں لہذا وہ کسی بھی تحقیقات سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یونیورسٹی میں چونکہ دین بیزار افراد کی اکثریت ہے لہذا کئی لوگوں نے خاموشی سے اس یوم کے انعقاد کی تائید بھی کی۔ تاہم حیدرآباد میں اس طرح کی تقریب کے انعقاد کی صورت میں مسلمانوں کی زبردست ناراضگی اور برہمی کے اندیشوں کو دیکھتے ہوئے لمحہ آخر میں اس تجویز سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام اس یوم میں کسی اور مقام پر شرکت کرتے ہوئے حکومت سے اپنی وفاداری کا ثبوت دیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ یوگا ڈے کے انعقاد کی تیاریوں کی اطلاع ملتے ہی طلباء میں زبردست بے چینی پیدا ہوگئی تھی اور احتجاج کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں۔ اسی دوران گزشتہ پانچ برسوں میں تقررات اور دیگر اہم فیصلوں کے سلسلہ میں تحقیقات کی اطلاع ملتے ہی یونیورسٹی پر تسلط رکھنے والا گروپ سرگرم ہوچکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کے چانسلر سے مسلسل نمائندگی کی جارہی ہے کہ وہ وہ فوری مداخلت کرتے ہوئے اس طرح کی تحقیقات کو روک دیں۔ بتایا گیا ہے کہ چانسلر اردو یونیورسٹی سے کئی ایسے افراد بھی رجوع ہوئے جن کا تقرر اور ترقی قواعد کے تحت نہیں ہے۔ اردو یونیورسٹی میں کئے گئے تقررات میں فرضی اور جعلی دستاویزات کی پیشکشی سے متعلق بھی شکایات ملی ہیں۔ اگر تحقیقات کی جائیں تو کئی افراد کی اسناد فرضی اور جعلی پائی جائیں گی۔ دوسری طرف کئی شعبوں میں اہلیت کے بغیر ہی ترقی دی گئی اور ایسے افراد ابھی بھی عہدوں پر برقرار ہیں۔ سابق وائس چانسلر اور موجودہ انچارج وائس چانسلر میں قربت کے نتیجہ میں ان کا گروپ یونیورسٹی پر عملاً حکمرانی کررہا ہے اور ہر طرح کی بے قاعدگی اور بدعنوانی کو چھپانے اور خاطیوں کو بچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔