موریوں کا پانی گھروں میں داخل ہونے کا ڈر، مقامی لیڈروں کا گذشتہ 5سال سے تُمبھ کو چوڑا کرنے کاو عدہ وفا نہ ہوا
حیدرآباد ۔23 مئی ( سیاست نیوز ) یوں تو دنیا میں بارش کی تباہ کاریاں بہت ہوئی ہیں لیکن جہاں بھی ہوئیں ہیں وہاں کے لوگوں نے بارش تھم جانے کے بعد راحت کاری کرتے ہوئے عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کردی ہیں، اور مستقبل میں ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی بھی تیار کرلی ہے۔اس کے علاوہ نئی تعمیرات کے ذریعہ بارش یا طوفان سے تباہ شدہ علاقے کو ترقی بھی دی گئی ہے۔ لیکن ہندوستان میں خاص طور سے حیدرآباد میں بارش کے متاثرین کو راحت پہنچانے کی جدوجہد نہیں کی گئی ہے۔آج بھی تھوڑی سی بارش سے سڑکوں پر پانی جمع ہوجاتا ہے اور مین ہول اُبل پڑتے ہیں۔ بارش کے پانی کی نکاسی کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات در پیش ہوتی ہیں۔پرانے شہر کے حلقے اسمبلی بہادرپورہ میں بارش کی وجہ سے کئی نشیبی علاقے زیر آب آجاتے ہیں۔جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے مکانات چھوڑکر دوسرے محفوظ علاقوں میں منتقل ہونا پڑتا ہے۔ایسا ہی ایک علاقہ ہے نواب صاحب کنٹہ جہاں پر تین دہائیوں سے لوگوں کے مکانات میں پانی داخل ہوتاآرہاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوردراز علاقوں کا بارش کا پانی اس علاقے کے ایک چھوٹے سے نالے سے گذرتا ہے ۔بارش کے پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اور پانی جانے کا راستہ یعنی موری بہت چھوٹی ہے جسے یہاں کے لوگ تُمبھ کہتے ہیں۔نواب صاحب کنٹہ علاقہ ایسی جگہ موجود ہے جس کے چاروں طرف پہاڑی علاقہ گھیرا ہوا ہے اور بارش کے اوقات میں آس پاس کے تمام پہاڑی علاقوں کا بارش کا پانی اس کنٹہ میں جمع ہوجاتا ہے ۔اور کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر پانی جمع رہتا ہے۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ تُمبھ میں کچرا یا تھیلے وغیرہ جاکر پھنس جاتے ہیں اور اس وقت سارا علاقہ جھیل میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ نواب صاحب کنٹہ ایک گنجان آبادی والا علاقہ ہے اور یہاں کے لوگوں نے کئی مرتبہ اپنے گھر اونچے کئے ہیں لیکن ابھی بھی کئی ایسے مکانات موجود ہیں جن میں بارش کا پانی داخل ہونے کا خدشہ لگا رہتا ہے
۔کچھ لوگ اپنے گھروں کو اس قدر اونچا بنالیئے ہیں کہ ان کے گھروں میں بارش کا پانی داخل نہیں ہوتا ہے لیکن جو غریب افراد ہیں وہ گھروں کو اونچا کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب بھی بارش ہوتی ہے تب لوگ گھبراجاتے ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں گندا پانی داخل ہوجاتا ہے ۔اور چھوٹے معصوم بچوں کو کرسیوں پر بیٹھا دینا پڑتا ہے اور بڑے حضرات کو پانی پر نظر رکھنی پڑتی ہے کیونکہ کئی مرتبہ بارش کے پانی کے ذریعہ سانپ اور زہریلے کیڑے گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ مکانا ت میں رکھا ہوا گھریلو ساز و سامان تباہ و برباد ہوجاتا ہے ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، ان غریب لوگوں کو ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟کئی گھنٹوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد لوگ اپنے گھروں سے پانی کو باہر پھینکتے ہیں اور ہر بار صفائی کے لئے کافی دقتوں کا سامنا بھی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ علاقے کی سڑکوں پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے کئی حادثات بھی پیش آتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نماز کے اوقات میں مسجد کو جانے والے نمازیوں کو گندے پانی میں سے گذرنا پڑتا ہے ۔بعض لوگ گھر سے باوـضو نکلتے ہیں لیکن مسجد پہنچنے تک وضو ختم ہوجاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے مقامی لیڈروں سے کئی مرتبہ نمائندگی کی گئی لیکن
آج تک اس مسئلہ کو حل نہیں کیا گیا ہے۔یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ ٹولی چوکی میں واقع ندیم کالونی میں کئی برس پہلے بارش کا پانی گھروں کی پہلی منزل تک پہنچ گیا تھا لیکن مقامی لوگوں کے احتجاج اور بلدیہ کی خصوصی توجہ نے وہاں کے مسئلہ کو تقریباً حل کرلیا ہے ۔ لیکن نواب صاحب کنٹہ کے بارش کے پانی کی نکاسی کا انتظام آج تک بھی درست نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا یہ پرانے شہر کا علاقہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کیا جارہا ہے ۔یہاں کی عوام نے مقامی لیڈروں سے اپیل کی ہے کہ بارش کے پانی کے اس مسئلہ کو جلد از جلد حل کروائیں تا کہ غریب لوگوں کو ہورہے نقصا ن سے بچا جاسکے۔