مودی ۔ ٹرمپ ملاقات

صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ سے ایک دن میں 3 مرتبہ بغلگیر ہونے اور کئی مرحلوں پر مصافحہ کرنے کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستان کے حق میں خاص نتیجہ خیز معاہدے نہیں کئیے ۔ البتہ معتمد خارجہ ایس جئے شنکر نے اب تک امریکہ کا دورہ کرنے والے ہندوستانی وزرائے اعظم میں سے نریندر مودی کے دورہ کو نتیجہ حیز قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں ہندوستان امریکہ کے درمیان مزید کئی معاہدے ہوں گے ۔ جئے شنکر سابق جوائنٹ سکریٹری اور ہندوستانی سفیر برائے امریکہ رہ چکے ہیں ۔ انہوں نے منموہن سنگھ ۔ جارج بش ملاقات ، منموہن سنگھ ۔ بارک اوباما ملاقات اور نریندر مودی ۔ اوباما تعلقات کو قریب سے دیکھا ہے لیکن اس مرتبہ انہوں نے مودی کی ٹرمپ سے ملاقات کو مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے تو یہ دونوں ملکوں کی اب تک کے رابطہ کاری کے حق میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ اس ملاقات کا سب سے خاص پہلو صرف مسلم اور اسلامی دہشت گردی کے نام پر نشانہ بنانے پر توجہ دینا تھی ۔ صدر ٹرمپ نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں دہشت گردی پر اپنے سخت موقف کا احیاء کیا اور دونوں سربراہوں کے مشترکہ بیان سے بھی یہی واضح ہوا کہ ان کا مستقبل کا پروگرام دہشت گردی کو اسلام یا مسلم سے جوڑ کر کارروائی کی جائے ۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے بھی پاکستان کی حزب المجاہدین تنظیم کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر امتناع عائد کیا ہے تو آگے چل کر القاعدہ / داعش ، آئی ایس آئی ایل ، جیش محمد ، لشکر طیبہ ، ڈی کمپنی اور ان سے وابستہ یا ملحق تنظیموں کو نشانہ بنانے مودی حکومت سے تعاون حاصل کرنے کی پالیسی کو قطعیت دی جائے گی ۔ اس طرح امریکہ نے ہندوستان کے مستقبل کو داؤ پر لگاکر اپنی مسلم دشمنی یا اسلامی دشمنی پالیسی کو مضبوط بنانے کی پالیسی کو وزیراعظم مودی کے توسط سے قطعیت دینے کی کوشش کی ہے ۔ جیسا کہ ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی ہند ۔ امریکہ مشترکہ بیان پر تنقید کی کہ یہ بیان اسلامی دہشت گردی پر امریکہ کے نظریہ سے ہم آہنگ ہے جو سراسر ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک کے تعلقات کو جس طرح کی اہمیت اور بلندی حاصل تھی اب اس میں صرف ایک نکتہ نظر یعنی اسلامی دہشت گردی کے خلاف اتحاد پر آکر ٹکی ہوئی ہے ۔ یہ دونوں ممالک کے لیے کوئی بڑا نظریہ یا منصوبہ نہیں ہے ۔ ٹرمپ اور مودی نے اپنے دونوں ملکوں امریکہ اور ہندوستان کے باہمی تعلقات میں مضبوطی سے زیادہ انتشارانہ پالیسی کو ہوا دی ہے ۔ خاص کر وزیراعظم مودی نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے امریکہ کے نظریہ کو مبینہ طور پر قبول کرلیا ہے جو ہندوستانی سیکولر عوام کے لیے ایک صدمہ سے کم نہیں ہوگا ۔ ہندوستان اور امریکہ کی نمائندگی کرنے والے ان دونوں قائدین نے ذاتی نظریہ کی پوجا کرنے کا جس عقیدت کے ساتھ مظاہرہ کیا ہے وہ افسوسناک ہے ۔ وزیراعظم مودی نے جب واشنگٹن کے لیے رقت سفر باندھا تو ان کا منشاء یہ تھا کہ وہ ہندوستان کے لیے سرمایہ کاری اور مختلف معاہدوں کے ذریعہ روزگار کے مواقع پیدا کریں گے ۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کے لیے H-1B ویزا مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ٹرمپ نے ہندوستان کی تشویش کو خاطر میں ہی نہیں لایا اور پھر وزیراعظم مودی نے بھی ہندوستان کے لیے معاشی تعاون کے اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ بظاہر صنعتی شعبوں میں باہمی تعاون پر بات چیت تو ہوئی ہے اور انڈین سافٹ ویر اور سرویس انڈسٹری کو 150 بلین امریکی ڈالر کے لیے ایک بڑی مثبت مارکٹ تک رسائی کی راہ دکھائی گئی ہے مگر اس میں کامیابی کے امکانات موہوم ہیں کیوں کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے روز اول سے ہی اپنے ملک اور اپنے عوام کے مفادات کو ملحوظ رکھا ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان کو صرف اس لیے قریب کرنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ وہ ہندوستان کو دفاعی اور توانائی شعبہ میں امریکہ کا اہم پارٹنر مان رہے ہیں ، چین کے حوالے سے بھی ہندوستان ٹرمپ کے لیے ایک دباؤ ڈالنے والی پالیسی کے سوا کچھ نہیں ہے کیوں کہ چین پر جغرافیائی دباؤ ڈال کر ٹرمپ اپنے ملک کے مفادات کو برتری دی ہے جو ہندوستان کے مفادات کے حق میں نہیں ہے جیسا کہ چین کے میڈیا نے کہا کہ ٹرمپ نے ہندوستان کو چین کی خاطر ایک تاش کے پتے کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کیا اس طرح کی دوستی اور بار بار بغلگیر ہو کر یا مصافحہ کرنے سے دونوں ملکوں کے عوام کے مستقبل کو بہتر بنایا جاسکتا ہے یہ ایک غور طلب امر ہے۔