مودی ۔ شریف ملاقات

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز ؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
مودی ۔ شریف ملاقات
ہندوستان و پاکستان کے وزرائے اعظم کے مابین بالآخر نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں ملاقات ہوگئی ۔ سارک ممالک کے سربراہان حکومت کی چوٹی کانفرنس کے موقع پر پہلے دن دونوں وزرائے اعظم نریندر مودی اور نواز شریف نے ایک دوسرے سے ملاقات یا مصافحہ تک سے گریز کیا تھا لیکن دوسرے دن دونوں قائدین نے خیر سگالی ملاقات کی اور ایک دوسرے سے مسکراتے ہوئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔ کہا جارہا ہے کہ نیپال نے اس ملاقات میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ابتداء میں دونوں ممالک کے قائدین کی سرد مہری کو دیکھتے ہوئے نیپال کے وزیر اعظم نے میزبانی کے رول کو مزید بہتر انداز میں ادا کرتے ہوئے ان قائدین کی ملاقات کو یقینی بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ یہ نیپال کا ایک مثالی اقدام تھا ۔ اس رسمی خیر سگالی ملاقات سے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلقات میں بہتری کی کوششوں کو آگے بڑھا یا جائے ۔ ہندوستان نے کہا کہ وہ اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات کو پرامن اور بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ نریندر مودی اور نواز شریف کی ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں ملکوں کے مابین بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان قدرے کشیدگی جیسی صورتحال بھی ہے ۔ گذشتہ مہینوں میںدونوں ملکوں کے معتمدین خارجہ کی بات چیت ہونے والی تھی تاہم اس سے قبل ہندوستان میں پاکستانی ہائی کمشنر کی حریت کانفرنس کے قائدین سے ملاقات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان نے بات چیت کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ اس کے بعد سے دونوںملکوں کے مابین کشیدگی جیسی صورتحال ہے ۔ جموںو کشمیر میں لائین آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس فائرنگ کے نتیجہ میں دونوں ہی جانب جانی نقصانات ہوئے ہیں ۔ یہ واقعات ایسے ہیں جن سے تعلقات میں بہتری پیدا ہونے کی بجائے مزید کشیدگی پیدا ہو رہی ہے ۔ سرحد پار سے اکثر و بیشتر ہندوستانی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ سرحدات پر امن قائم کرنے کیلئے بھی کوششیں متاثر ہوئی ہیں اور دونوں ملکوں کے مابین رسمی خیر سگالی جذبات کے مظاہروں سے بھی حالیہ وقتوں میں گریز کیا گیا ہے ۔
معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت کی تنسیخ کے بعد سے پاکستان کے رویہ میں منفی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اور دیگر بین الاقوامی فورموں میں پاکستان نے شدت کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ کو موضوع بحث بنانا شروع کردیا ہے ۔ پاکستان کا مطالبہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور ریاست کے عوام کی توقعات کے مطابق حل کیا جائے ۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیر میں استصواب عامہ کروایا جائے ۔ ہندوستان ایسے کسی بھی مطالبہ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ دونوں ملکوں کے موقف میں کسی طرح کی لچک نہ ہونے کے نتیجہ میں تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ۔ اب جبکہ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے نیپال میں ملاقات کی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے ۔ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تعلقات معمول پر آتے ہیں تو اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کو بلکہ سارے جنوبی ایشیا کے علاقہ کو فائدہ ہوگا ۔ سارے علاقہ کے استحکام اور خوشحالی کا انحصار دونوں ملکوں کے تعلقات پر ہے ۔ دونوں ہی ملکوں کو اس صورتحال کو سمجھنا ہوگا اور داخلی مصلحتوں کا شکار ہوئے بغیر تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھان کی ضرورت ہے ۔ کشیدگی جیسے حالات اور غیر لچکدار موقف سے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے بلکہ سرد مہریی کا شکار تعلقات کا مزید کشیدگی کا اضافہ ہوسکتا ہے اور یہ کشیدگی کسی بھی ملک کیلئے یا کسی بھی ملک کے عوام کیلئے بہتر نہیں ہوسکتی ۔ اس کا احساس کرنا ضروری ہے ۔
پاکستان کو خاص طور پر ہندوستان سے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ کشمیر کا مسئلہ باہمی نوعیت کا ہے اور اس کو باہمی سطح پر بات چیت کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے ۔ بین الاقوامی فورموں میں اس مسئلہ کوموضوع بحث بناتے ہوئے پاکستان ہوسکتا ہے کہ اندرون ملک کچھ گوشوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن ہندوستان کے ساتھ اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات کا احیاء اس طرح کی حکمت عملی کے ذریعہ نہیں ہوسکتا ۔ اس سے تعلقات مزید بگڑ رہے ہیں ۔ پاکستان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی اہمیت کو سمجھے اور اپنی سرزمین کو ہندوستان کے خلاف کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے ۔ نیپال میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کے بعد تلخیوں کو ختم کرتے ہوئے خوشگوار دوستانہ ماحول پیدا کرنے دونوں ہی ممالک کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔