بلا سینور (گجرات) 11 مارچ (سیاست ڈاٹ کام )نریندر مودی کو اُن کی آبائی ریاست میں سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے راہول گاندھی نے آج ان کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ کاشتکاروں کی اراضی ’’سرقہ کر رہی ‘‘ہے۔ انہوں نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ اُس نے کانگریس زیر قیادت یو پی اے کی شروع کی ہوئی اسکیموں کی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے۔چیف منسٹر گجرات کا راست طور پر نام لئے بغیر راہول گاندھی نے مودی کا تقابل نازی ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر کے ساتھ کیا اور اُن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی کابینہ میں ’’بد عنوان‘‘ وزراء کو برقراررکھے ہوئے ہیں جبکہ ’’بدعنوانیوں‘‘ کے خلاف جدوجہد کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔
یہ دوغلی پالیسی ہے انہوں نے کہا کہ گجرات میں کس قسم کی چوکیداری ہورہی ہے لاکھوں ایکڑ اراضی کاشتکاروں سے چھین لی گئی ہے اور صنعت کاروں کے حوالے کی جارہی ہے جب کاشتکار کچھ کہتے ہیں تو ان کی آواز نظر انداز کردی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کاشتکاروں کی اراضی کا سرقہ کرنا چوکیداری ہے ، اسے چوری کہتے ہیں چوکیداری نہیں۔ وہ بلاسینور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے ان کے دورہ گجرات کی پہلی منزل ہے۔نریندر مودی اپنے عام جلسوں میں کہہ چکے ہیں کہ اگر بی جے پی برسر اقتدار آجائے تو وہ قوم کے خزانے کے چوکیدار کا کام کریں گے۔ 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے ’’انڈیا شائننگ ‘‘نعرے اور مودی کے زیر اقتدار گجرات کی ترقی پر بی جے پی کی توجہ کا تقابل کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا کہ پورے ملک میں تشہیر کی جارہی ہے کہ گجرات چمک رہا ہے لیکن اس کی چمک دھمک صرف چند صنعتکاروں تک محدود ہے۔ غریبوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔ 2004 میں بی جے پی انتخابات ہار گئی تھی ۔ این ڈی اے کی انڈیا شائننگ مہم رائے دہندوں کو پسند نہیں آئی تھی یہ بھی بی جے پی کی ناکامی کی ایک وجہ تھی۔
انہوں نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ اُس نے کانگریس کے شروع کئے ہوئے پروگراموں کی سہرا اپنے سر باندھ لیا ہے انہوں نے طنزیہ لہجہ میں کہا کہ اپوزیشن پارٹی کے قائدین 10 سال بعد دعوی کریں گے انہوں نے ہی مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار طمانیت اسکیم اور حق غذائی اجناس پروگرام شروع کئے ہیں جو کانگریس زیر قیادت یو پی اے کے پروگرام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دو قسم کے قائدین ہوتے ہیں ایک جن کا کوئی نظریہ ہوتا ہے اور جو عوام کے علم پر یقین رکھتے ہیں وہ عوام کے پاس جاتے ہیں ان سے سوال کرتے اور سیکھتے ہیں۔ دوسرے قسم کے قائدین سمجھتے ہیں کہ وہی سب کچھ جانتے ہیں ایسے قائدین کی بہترین مثال غالباً ہٹلر ہے۔ ہٹلر کا خیال تھا کہ عوام کی کوئی ضرورت نہیں ہے دنیا بھر کا علم اس کے دماغ میں موجود ہے۔ اس قسم کا قائد صرف اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتا ہے اسے عوام کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ نائب صدر کانگریس ماضی میں بھی مودی کا ہٹلر سے تقابل کرچکے ہیں۔