مودی کابینہ کے بے لگام وزرا

دیپ نفرت کے جلتے ہیں اب چارسُو
پیار کے موسموں کی ہوا چاہیئے
مودی کابینہ کے بے لگام وزرا
نریندر مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی وزرا کا طرز کارکردگی اور معیار بدل کر رہ گیا ہے ۔ اب مرکزی وزرا ملک کے وزرا کی بجائے اپنے مذہب اور فرقہ کی تشہیر کیلئے کام کر رہے ہیں اور انہیں اپنے زبان کے استعمال پر خود کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ آئے دن کوئی نہ کوئی وزیر کسی نہ کسی انداز میں متنازعہ بیان دینا اپنے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں۔ کوئی وزیر بی جے پی کو ووٹ نہ دینے والوں کو حرام زادے قرار دیتی ہیں تو کوئی وزیر ہندووں کے مذہبی رہنما جیسی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی رکن پارلیمنٹ جبرا تبدیلی مذہب کے پروگرام کو گھر واپسی قرار دے کر اس کو سرگرمی سے جاری رکھنا چاہتے ہیں تو کوئی ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ ایک فرقہ پرست جماعت کی جانب سے دستور ہند سے مخصوص الفاظ کو حذف کرنے کا شرانگیز مطالبہ کیا جاتا ہے تو ملک کے ذمہ دار وزیر اس پر مباحث کروانے کی رائے دیتے ہیں۔ ملک کی وزیر خارجہ کہتی ہیں کہ بھگود گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دیا جانا چاہئے ۔ اب ایک وزیر نے نسلی امتیاز کا ریمارک بھی کردیا ہے ۔ مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے کانگریس کارکنو ں سے سوال کیا کہ اگر سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے سفید فام سونیا گاندھی کی بجائے کسی سیاہ فام افریقی لڑکی سے شادی کی ہوتی تو کیا کانگریسی ان کی قیادت کو بھی تسلیم کرلیتے ؟ ۔ ان کا ادعا تھا کہ سونیا گاندھی کی قیادت کو صرف اس لئے تسلیم کیا گیا ہے کیونکہ وہ سفید فام ہیں۔ یہ کھلے نسل پرستی ہے جس کے خلاف دنیا بھر میں رائے عامہ ہموار ہوئی ہے اور نسلی امتیاز کے خاتمہ کے تعلق سے بڑے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں۔ اس ماحول میں ایک ذمہ دار مرکزی وزیر کی جان سے اس طرح کا ریمارک کیا جانا خود ان کی پست ذہنیت اور متعصب سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔ حالانکہ گری راج سنگھ نے اس طرح کے ریمارک پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اب اس مسئلہ کو ختم سمجھا جا رہا ہے لیکن اصل سوال مرکزی وزرا کے بے لگام تبصروں اور ریمارکس کا ہے جن کا سلسلہ نریندر مودی حکومت کی تشکیل کے بعد سے مسلسل جاری ہے ۔ سونیا گاندھی نے حالانکہ خود کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن کانگریس کے کارکنوں اپنی صدر کے خلاف ان ریمارکس پر برہم ہیں۔
جس طرح سے مودی حکومت کے وزرا بے لگام انداز میں متنازعہ اور نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں وہ باعث تشویش ہیں۔ وزیر اعظم مودی ہوں یا وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ہوں وہ بلند بانگ دعوے کرتے ہیں اور اخلاقیات اور اصولوں کی بات کہی جاتی ہے لیکن خود مرکزی مجلس وزارت میں ایسے عناصر شامل کرلئے گئے ہیں جو خود اپنی زبان کو لگام نہیں دے سکتے ۔ انہیں اپنے الفاظ کی سنگینی اور اس کے اثرات کا تک احساس نہیں ہے ۔ گری راج سنگھ نے ایسا نہیں ہے کہ پہلی مرتبہ کوئی متنازعہ بیان دیا ہو۔ اس سے قبل انہوں نے مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اب بھی گری راج سنگھ نے اپنی پست ذہنیت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے گورے اور کالے کے امتیاز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ احساس ضرور پیدا ہوا ہے کہ گری راج سنگھ کے خیال میں سیاہ فام افراد پر سفید فام باشندوں کو برتری حاصل ہے اور سفید فام افراد کی بالادستی قبول کی جاسکتی ہے سیاہ فام افراد کی نہیں ۔ یہ ان کی انتہائی پست اور متعصب ذہنیت کی عکاسی ہے ۔ اسی ذہنیت کو انہوں نے کانگریس کارکنوں پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی ہمیشہ کی طرح اس طرح کے واقعات سے اپنا دامن بچانا چاہتی ہے ۔ اس نے کہدیا ہے کہ چونکہ گری راج سنگھ نے ان ریمارکس پر افسوس کا اظہار کردیا ہے جو کافی ہے اور اب اس مسئلہ کو ختم سمجھا جانا چاہئے ۔
سابق میں جب سادھوی پراچی نے رام زادوں اور حرام زادوں کا ریمارک کیا تھا وزیر اعظم ان کی مدافعت میں اتر آئے تھے اور کہا تھا کہ وہ دیہی پس منظر سے آئی ہیں اور شہری سیاست سے واقف نہیں ہیں انہیں معاف کردیا جانا چاہئے ۔ اب گری راج سنگھ اس طرح کے ریمارکس کر رہے ہیں تو ان کا کیا جواز ہوسکتا ہے ؟ ۔ کیا وزیر اعظم انہیں بھی معاف کردینے کی سفارش کرینگے ۔ وزیر اعظم اپنے کس کس وزیر کو کس کس مسئلہ پر معاف کرنے کی ترغیب دینگے ؟ ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے وزرا کی مدافعت کرنے اور انہیں معاف کرنے کیلئے جواز تلاش کرنے کی بجائے ان پر لگام کسی جائے ۔ انہیں احساس ذمہ داری سے واقف کروایا جائے اور بے لگام تبصروں کے ذریعہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک بے لگام عناصر پر قابو پانا خود مودی کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔